کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 136
(اور جو لوگ ان کے بعد آئے دعا کرتے ہیں ، اے ہمارے رب ہمیں بخش دے ، اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں ، اور ہمارے دل میں مسلمانوں کے لئے کوئی کھوٹ نہ آنے دے، بیشک تو بڑی شفقت والا مہربان ہے) آج کل بلکہ عرصہ دراز سے ائمہ اربعہ کے مقلدوں اور ان اکابر محدثین کی مروی روایات کے قبول کرنے والوں کے درمیان عداوت ، کینہ، تعصب ، تعسف ، انکار اور مذاہب ومشارب کی حمیت دیکھی جاتی ہے، اور ہمیشہ موجود اور روز افزوں رہتی ہے ، اس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ائمہ اربعہ اور ان محدثین کے عہد سعادت میں بھی یہی ماجرا چلتا رہتا تھا، بلکہ اس کمزور بنیاد والے خدا دشمن اور کوتاہ نظر ، فن کار مقلدین کے انبوہ وجتھے کے برعکس ائمہ دین اور ائمہ محدثین کے درمیان غایت درجہ الفت ، اتحاد، موافقت اور محبت ہوا کرتی تھی، اور ہر ایک شخص اپنی تقریر وتحریر میں دوسرے کی تعریف اس کے سامنے اور پیٹھ پیچھے کیا کرتا تھا۔ طبقات محدثین کی کتابیں اور ائمہ مجتہدین کی تواریخ موجود ہیں ، اللہ کے لئے کچھ وقت ان کے مطالعہ میں صرف کرنا اور حقیقت حال کی طرف پاؤں لے جانا چاہئے، اگر کبھی کسی اہلحدیث نے کسی فقیہ کے حق میں کوئی نرم گرم بات کہی ہوگی تو اس کی بنیاد دین مبین کے دفاع پر ہوگی، نفسانیت کی بنا پر ایسا نہیں ہوا ہوگا، جیسا جاہل لوگ گمان کرتے ہیں ، اس طرح کے نیچ اونچ کلمات ان کے اور ان کے نفس کمالات میں قادح نہیں ہیں ، جیسا کہ اس کے اسباب کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ؎ کار پاکاں را قیاس از خودمگیر گرچہ ماند در نوشتن سیر وشیر (نیک لوگوں کے کام کو اپنے کام پر قیاس نہ کرو اگرچہ سیر ( بمعنی لہسن) اور شیر ( بمعنی دودھ ) کی لکھائی ایک جیسی ہوتی ہے۔)