کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 131
کرنے میں وہ معذور تھے، جس کے بہت سے اسباب واعذار پہلے بیان ہو چکے ہیں ، مزید یہ کہ ائمہ کرام قرون مشہود لہا بالخیر کے لوگوں میں سے ہیں ، اور ان قرون کی خیریت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صریح سے ثابت ہے، دوسرے یہ کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی الاطلاق مسلمانوں کی شان میں برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے، اور اس پر وعید بھی بیان فرمائی ہے، کسی کو لعن طعن کرنا اور مذمت وہجو کرنی جو فرقہ شیعہ کا قبیح شیوہ ہے، اس سے بھی سخت ممانعت کی ہے۔ جو مسلمان اپنے کو اللہ کا بندہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کہتا ہے، اور شہادت کا کلمہ طیبہ زبان پر رکھتا ہے، ہر چند کہ جاہل اور عام لوگوں میں شمار ہوتاہے، وہ ہرگز ان بزرگ نیکوکاروں کے احوال کا استخفاف اور ان کی سبکی نہیں کرے گا ، پھر علماء مسلمین خاص کر متبعین محدثین کی شان میں وہ بے ادبی کی جرأت کس طرح کر سکتا ہے؟ جبکہ یہی حضرات ان احادیث کے راوی ہیں جن میں سب وشتم ، لعن طعن ، مذمت وغیبت سے منع اور آبرو ریزی کے ازالہ کا بیان ہے، یہ گمان عاملین حدیث کے حق میں بے شبہ ’’ان بعض الظن اثم‘‘ کا مصداق رہا ہے، بدگمانی زنان امت کا کام ہے، مقتدیان ملت کا نہیں ۔ اگر کوئی سیاہ دل اپنی نفسانیت ، قوت بہیمیہ اور عصبیت کی راہ سے اس معصیت عظمی اور گناہ عظیم میں مبتلا ہو جائے تو اس کو اپنے ایمان سے ہاتھ دھونا چاہئے، یہ بلا ایک جماعت کی طرف سے ظہور میں آئی ہے، جو ان نفوس قدسیہ حضرات ائمہ اربعہ کو اپنے گناہ آلود نفوس پر قیاس کئے ہوئے ہیں ، ناجنسوں ، شیعوں اور درہم ودینار کے پجاری فرقوں کی صحبت کی وجہ سے اپنے لئے مصیبت اور عذاب مول لیا ہے، اور عدل وانصاف کو یک قلم اپنے صفحۂ دل سے کھرچ دیا ہے، دین کو کھیل واڑ بنا رکھا ہے، مغز اور چھلکے میں فرق نہیں پہچانا ۔ اس ملت میں ائمہ اربعہ مجتہدین کا جو حال ہے ویسا ہی ائمہ حدیث بالخصوص اصحاب امہات ستہ بلکہ ان کے ہم مثلوں کا معاملہ ہے، یہ تمام دین مبین کے اساطین اور ممالک شرع متین کے سلاطین تھے، ان کا بار احسان وکرم تمام امت سابقہ اور اس ملت لاحقہ کی گردن پر