کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 129
خارج میں کئی وجوہ سے مستبعد ہے، جو ارشاد الفحول اور حصول المامول میں مذکور ہیں ، اگر اجماع پایا بھی جائے تو کتاب وسنت سے سند کا محتاج ہوگا، کیونکہ اجماع اور قیاس کوایام زمانہ کے کسی دن بھی کتاب وسنت سے بے نیازی نہیں رہی ہے، اور یہ بات خود بھی محال ہے کہ امت ان دونوں حجت قاطعہ کے خلاف پر اجماع کرے۔ ہر اجماعی مسئلہ جس کے ساتھ اہل رائے اور ارباب تقلید وابستگی رکھتے ہیں ، اگر کسی آیت یا کسی حدیث کے خلاف پایا جائے اور حجت نیرہ کے معارض پڑے تو یہ اس بات پر روشن دلیل ہے کہ اجماع مذکور صحیح نہیں ہے، کیونکہ ہر چند ان ہر دو اصل اصیل سے دلیل کا فوت ہونا تمام امت کے حق میں محال عقلی نہیں ہے، لیکن خیال سے دور اور واقع ومثال سے بعید تر ہے، اور جب نص یا خبر کا اکثر مخفی رہنا لائق قبول نہیں ہے، تو اس کے خلاف پر اجماع امت کیسا ؟ بالخصوص جب اس باب میں اہل سنت کی کتابوں وصحیفوں کے اندر بہت سی آیات قرآن یا احادیث رسول موجود، مکتوب، مقروء ، محفوظ اور متصل مرفوع یا مستند مقطوع ہیں ، تو اس صورت میں ان مسائل کے بارے میں اجماع کا دعوی اس بنا پر کیا جائے کہ فقہ کذائی کے دفاتر میں ان احکام پر اجماع کی کہانی موجود ہے، اور اس کے مقابل میں صحیحین وغیرہما کی حدیث متروک وغیر مقصود ہے، یہ ایسی بلاء وآفت ہے کہ اگر آسمان ٹوٹ پڑے، زمین پھٹ جائے اور ستارے بکھر جائیں تو کوئی بعید بات نہیں ہوگی، وہ کون سا عالم یا امام یا مقتدی یا ماموم ہے جو اپنی رائے اور اجتہاد میں خطا سے اور سابقہ عذروں اور متقدم وجوہ کے وجود یا عدم کی بنا پر مخالفت حدیث کی غلطی سے معصوم رہا ہے۔ شیخ فلّانی نے لکھا ہے: ’’ان السلف کلھم علی ذم الرأی والقیاس المخالف للکتاب والسنۃ، انہ لا یحل العمل بہ لا فتیا ولا قضاء، قال: وقد جمع ابن دقیق العید المسائل التی خالف مذھب کل واحد من الأئمۃ الأربعۃ فیھا الحدیث