کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 127
چیزوں کو بیان کیا ہے ، اور راہ نجات سے ہلاکت کے نچلے گڈھے میں پہنچا دیا ہے، فانا للہ۔ منع اجماع: حافظ ابن قیم کہتے ہیں : ’’ کذب أحمد من ادعی الاجماع ولم یسغ من تقدیمہ علی الحدیث الثابت، وکذلک نص الشافعی أیضا فی رسالتہ الجدیدۃ علی أن ما لا یعلم فیہ الخلاف لا یقال لہ اجماع، قال وقال أحمد ما یدعی فیہ الرجل الاجماع فھو کذب ومن ادعی الاجماع فھوکاذب، لعل الناس اختلفوا ما یدریہ ولم ینتہ الیہ، فلیقل لا نعلم الناس اختلفوا ولم یبلغنی ذلک، ھذا لفظہ۔‘‘ [1] (امام احمد نے اس شخص کو کاذب کہا ہے جواجماع کا دعوی کرے اور ثابت حدیث پر اس کو مقدم کرنے کو ناجائز کہا ہے، اسی طرح امام شافعی نے بھی اپنے نئے رسالہ میں تصریح کی ہے کہ جس مسئلہ میں اختلاف معلوم نہ ہو تو اس کو اجماع نہیں کہا جائے گا، امام احمد کا قول ہے کہ کسی مسئلہ میں کسی کا یہ دعوی کرنا کہ اس پر اجماع ہے، یہ بالکل غلط اور جھوٹ ہے ، اور اجماع کا دعوی کرنے والا جھوٹا ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہو اور اسے اس کا علم نہ ہو یا اس تک خبر نہ پہنچی ہو، اس لئے اس کو یوں کہنا چاہئے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہے، اور نہ ہمیں اس کی خبر ہوسکی ہے، یہ ہیں ان کے الفاظ ) غرض کہ چاروں اماموں میں سے ان ہر دو امام عالی مقام نے اجماع کے انکار اور حدیث پر اس کی تقدیم کے انکار کی پوری صراحت کی ہے، پس اجماع سے استدلال متفق علیہ نہیں ہوا ، وللہ الحمد۔ اسی لئے علامہ شوکانی نے وابل الغمام میں فرمایا ہے کہ اجماع کی اکثر حکایات خرافات ہیں ، انتہی۔ یہ مولوی وملا جن کی عمر فقہ کذائی کی تعلیم وتعلم میں بسر ہوتی ہے، جو کچھ اپنی کتابوں میں
[1] اعلام الموقعین ۱ / ۳۰ ۔