کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 126
اور ثوری کی تقلید بھی نہ کرو، دین کی باتیں وہاں سے لو جہاں سے ان لوگوں نے لیا ہے۔ ) اوزاعی اور ثوری کا نام اس وجہ سے لیا ہے کہ یہ دونوں بھی اس زمانے میں امام ابو حنیفہ اور شافعی وغیرہ کی طرح مذاہب متبوعہ والے تھے، مقلدوں نے ان چار اماموں میں مذہب کو جو منحصر کیا ہے اس کی اصل پائی نہیں جاتی ہے، اور نہ کوئی دلیل اس پر دلالت کرتی ہے، بلکہ ان دونوں اماموں ، اور ان کے ہم مثلوں کے بعد ایک دوسری جماعت بھی متبوع المذاہب رہی ہے، جیسے ابن خزیمہ جو امام الائمۃ لقب رکھتے تھے، یہ لفظ ثناء وتعریف میں لفظ امام اعظم سے بہت عظیم ہے، اسی طرح ابن جریر وغیرہ ہیں ، التاج المکلل میں ایک جماعت کثیرہ کو عدم تقلید اور اجتہاد کامل مطلق کے مرتبہ کو پہنچنے کے عنوان سے بیان کیا ہے، ان میں سے بیشتر ائمہ مجتہدین کی بنسبت علوم کے زیادہ جامع تھے، اور اصول فقہ میں اجتہاد کی جتنی شرطیں لکھی ہیں ان سے کہیں زیادہ ان کو حاصل تھیں ، پس چار اماموں میں اجتہاد اور تقلید کو منحصر کرنا انصاف کا خون کرنا اور چہرے سے شرم وحیا کی چادر نوچ پھینکنا ہے۔ قول سوم: ’’ من قلۃ فقہ الرجل أن یقلد دینہ الرجال‘‘[1] (انسان کی یہ ناسمجھی ہے کہ اپنے دین کو رجال کا مقلد بنائے ) لغت میں فقہ کا معنی ہے سمجھنا، جاننا، امام صاحب نے اس قول میں مقلد کو بے فہم قرار دیا ہے، اور نافہمی جہالت ہے، اسی وجہ سے عبد البر وغیرہ نے مقلدین کو ہرچند کہ وہ اپنے کو عالم ظاہر کریں ، یا دوسرے ان کے بارے میں علم وفضل کا اعتقاد رکھیں ، اہل علم کے زمرہ سے خارج رکھا ہے، جیسا کہ شیخ فلانی نے ایقاظ الہمم میں اس کی تصریح کی ہے۔ یہی جہالت اس فرقہ کے لئے باہم عداوت کا سبب اور متبعین سنت وخبر پر انکار کا باعث ہوئی ہے، ورنہ در اصل یہ دونوں گروہ ایک آقا کے کئی غلام ہیں ، ان کے افتراق ، شقاق ، نفاق اور اختلاق کی کوئی صحیح وجہ موجود نہیں ہے، شیخ ابو مرہ نے ان کی ان حرکتوں اور عجیب وغریب
[1] مصدر سابق ۔