کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 125
یہاں پر امام احمد نے قوم کی اصطلاح کے لحاظ سے لفظ ’’تقلید ‘‘ کو استعمال کیا ہے، ورنہ وہ تو تقلید کو جانتے نہیں ہیں ، انہوں نے اخذ قول کو تین قسموں میں منحصر اس بنا پر کیا ہے کہ یہ تینوں قسمیں حدیث خیر القرون کے مطابق ہیں ، اور صحابہ وتابعین کا سنت مطہرہ کی اتباع کرنا تمام امت کو معلوم ہے، پس ان لوگوں سے اخذ کتاب وسنت کا اخذ ہوگا ، کسی دوسری چیز کا نہیں ، اس لئے کہ ان حضرات کے بابرکت زمانے میں ان تقلیدات کا رواج نہیں تھا، ہزاروں مفتیان فتوی دیا کرتے تھے ، ہر شہر اور دیہات میں کوئی عالم موجود ہوتا تھا، جس کی طرف مسائل دریافت کرنے اور احکام شرائع سیکھنے کے لئے لوگ رجوع کرتے تھے، اور فتوی دریافت کرنے کے لئے ایک مفتی یا عالم کے ساتھ مقید نہیں تھے، جیسا کہ اعلام اور جُنہ میں منقح ہو چکا ہے۔
استفتاء کے لئے کسی ایک عالم کی تقیید وتخصیص تقلید کا ثمرہ ہے، اور تقلید کو اس زمانے میں کوئی جانتا پہچانتا نہیں تھا کہ وہ کس کھیت کی مولی ہے ، اور کیا نام ونشان رکھتی ہے ؟ بلکہ ایک شخص دوسرے سے اس کی رائے دریافت کرتا تودوسرا اس پر غصہ ہوتا اور سخت نفرت کرتا تھا ، بہرحال اہل قبول واقبال کے اس امام نے عبارت مذکورہ میں تقلید سے نہی کی تصریح فرمائی ہے، ابن قیم کہتے ہیں :
’’لم یؤلف أحمد کتابا فی الفقہ، وانما دون أصحابہ مذھبہ من أقوالہ وأفعالہ وأجوبتہ وغیر ذلک ‘‘ [1] (امام احمد نے فقہ میں کوئی کتاب تالیف نہیں کی ہے، بلکہ ان کے اصحاب نے ان کے اقوال ، افعال اور جوابات وغیرہ سے ان کا مذہب مدون کیا ہے)
قول دوم:
’’ لا تقلدنی ولا تقلد مالکا ولا الشافعی ولا الأوزاعی ولا الثوری، وخذ من حیث أخذوا‘‘[2] (میری تقلید نہ کرو، اسی طرح مالک ، شافعی، اوزاعی
[1] مصدر سابق ۔
[2] مصدر سابق ۔