کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 122
(آپ حدیث اور رجال کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ، جب آپ کے پاس صحیح حدیث ہو تو مجھے بتائیں تاکہ میں اس کو اپنا مذہب بناؤں ، چاہے وہ حدیث کوفی یا بصری یا شامی ہو ) امام شافعی کا یہ قول انتہائی انصاف سے متصف ہے ، کیونکہ وہ استاذ ہیں ، اور امام احمد بن حنبل ان کے شاگرد ہیں ، لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ شاگرد ، شیخ سے حدیث کا زیادہ جانکار ہے ، اور دین میں حدیث پر عمل ہوتا ہے، اس کے ما سوا پر نہیں ، تو ان کو حدیث سے باخبر کرنے کا حکم دیا، چاہے حدیث جس جگہ کے راوی کی ہو ، کیونکہ رواۃ حدیث سے روایت قبول کرنا رواۃ کی تقلید نہیں ہے، بلکہ سنت اور رسول رحمت کے اسوہ حسنہ کی اتباع ہے، گو وہ حدیث مفضول سے فاضل کو اور مخدوم سے خادم کو کیوں نہ پہنچے، یہی بات امام بیہقی نے بھی کہی ہے، اسی لئے علماء حجاز ، شام، یمن اور عراق کی ایک جماعت نے اس قول کو اختیار کیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو چیز صحت کے درجہ کو پہنچی ہے، اس کو بلا لحاظ اور بغیر تردد پکڑ لیا ہے، حق کے واضح اور حجت کے ظاہر ہونے کے وقت اہل زمانہ مٹھو میاں کے مذہب کی طرف ذرا بھی میلان نہیں کیا ہے۔ نوواں قول : ’’متی رویت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدیثا صحیحا فلم آخذ بہ ، فأشھدکم أن عقلی قد ذھب‘‘[1] ( جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث روایت کروں پھر اس کو نہ لوں تو میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میری عقل چلی گئی ہے ) یہ کہتے ہوئے سب کے سامنے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی لا یعقل بھی یہ کام نہیں کرے گا کہ کسی مسئلہ میں ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول صحت کو پہنچا ہوا ہو، دوسری طرف آپ کے غیر کا قول ہو، اور وہ شخص غیر کا قول سنے اور حدیث سے چشم پوشی کرے، پھر بھلا جو شخص زیور عقل سے آراستہ اور لباس تقوی سے پیراستہ ہے ایسی جرأت کب کرے گا ؟ اس کے باوجود قول غیر کا قائل اپنے کو مسلمان اور رسول انس وجن کی امت میں شمار کرتا ہے، ایسے شخص کو اس سے کہیں
[1] مصدر سابق ص ۱۰۳۔