کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 121
سے ایک کا قول کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ کے زیادہ مشابہ اور قریب تر ہوگا اسے لے لوں گا ، کیونکہ اس کے ساتھ ایسی چیز ہے جس کے مثل سے وہ قول قوی ہو جاتا ہے، اور مخالف قول کے ساتھ ایسی کوئی چیز نہیں ہے) یہ قول سب سے عظیم قائل کے قول کے موافق ہے جسے خیر الکتب (قرآن) میں نازل فرمایا ہے ، جو اس طرح ہے : ﴿ فَبَشِّرْ عِبَادِ ‎﴿١٧﴾‏ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ﴾ [1] اس آیت کریمہ کے آخر میں احسن قول کی اتباع کرنے والے بندوں کو أولوا الألباب (عقل مند لوگ ) کی سند دی گئی ہے، جو اس بات پر دلیل ہے کہ احسن اقوال کا متبع دانش مند ہے، اور آراء رجال کا مقلد دانش مندوں میں سے نہیں ہے ، اور اس کا اقتضاء یہ ہے کہ تمام عاملین حدیث اور متبعین سنت خواہ قدیم ہوں یا جدید سب عقل مند ہیں ، ان کے برخلاف تارکین سنت اور پیروان علماء ومشایخ بے وقوف لوگ ہیں ، جو رجال امت اور بندگان ملت کے قول کو اللہ اور رسول کے قول پر ترجیح دیتے ہیں ، اور اس کو کمال عقل ودانش تصور کرتے ہیں ، حالانکہ عقل صحیح اور قلب سلیم کے مرتبہ سے کوسوں دور پڑے ہیں ، ان لوگوں کی بے عقلی خود قرآن کے بیان اور رد تقلید کی آیات سے قرآن پڑھنے والوں پر آفتاب نیم روز اور چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہے، اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جس شخص پر اس کی بے عقلی روشن نہیں ہے وہ جتنا بھی قرآن پڑھے وہ قرآن خواں نہیں ہے، بلکہ قرآن کا مخالف اور سید الانس والجن کی زبان پر ملعون ہے، اس میں جھگڑا کرنا حرام ہے۔ آٹھواں قول: امام شافعی نے امام احمد سے فرمایا : ’’ وأنتم أعلم بالحدیث والرجال منی، فاذا کان الحدیث الصحیح عندکم فاعلمونی بہ، أی شیٔ یکون کوفیا أو بصریا، أو شامیا حتی أذھب الیہ‘‘[2]
[1] اس کی تخریج مع ترجمہ حاشیہ نمبر ۷۹ میں گذر چکی ہے۔ [2] مصدر سابق ص ۱۰۲ ۔