کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 120
یؤخذ العلم من الأعلی ‘‘ [1] (کتاب وسنت کے موجود ہوتے ہوئے کسی دوسری چیز کی طرف رجوع نہیں کیا جائے گا ، اور علم کو اعلی ہی سے لیا جاتا ہے ۔)
یہ عبارت بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ غیر قرآن وحدیث کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگرچہ اجماع وقیاس ہی کیوں نہ ہو ، یہ اس بات پر دلیل ہے کہ سلف انہیں دو حجتوں کو اصول دین جانتے تھے، یہی بات لائق قبول اور حق ہے، جو لوگ چار اصول کے قائل ہیں ، ان کے نزدیک بھی اجماع وقیاس کا شمار اکثر حرف ’’ثم ‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے، جو رتبہ کی بعدیت اور تراخی پر دلالت کرتا ہے، مثلا لکھتے ہیں : ’’أصول الدین أربعۃ، الکتاب والسنۃ، ثم الاجماع، ثم القیاس‘‘ اس طریقے سے لکھ کر ان دونوں کے اور ان کے مابعد کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔
اجماع کو قبول کرنا اجماعی مسئلہ نہیں ہے کہ اس کی حجیت کا قائل شخص اس سے استدلال کے لئے کھڑا ہوسکے، کیونکہ امام احمد جو دوسرے یعنی تینوں اماموں کے ہم رتبہ ہیں ، بلکہ تمام اہل سنت وجماعت کے امام اور حدیث رسول کے ان سب سے بہت بڑے عالم ہیں ، انہوں نے اجماع کا انکار کیا ہے، اجماع میں معتبر چیز امت کے ائمہ مجتہدین کا اتفاق ہے، ان لوگوں کے اجماع کا کوئی اعتبار نہیں ہے جو نقالی ، لغو کلامی ، غلو وتحریف کرنے والے، تاویل کرنے والے جاہل لوگ ہیں ، امام شافعی کا کلام مذکور نفی کی صورت میں دو اصل یعنی کتاب وسنت کے علاوہ کی طرف رجوع کرنے سے نہی پر دلالت کرتا ہے، اور نہی میں اصل تحریم ہے، معانی وبیان کے قاعدے کے مطابق نہی کو نفی کی صورت میں ذکر کرنا بہت بلیغ ہوتا ہے۔
ساتواں قول: ’’ اذا قال الرجلان فی شیٔ قولین مختلفین نظرت، فان کان قول أحدھما أشبہ بکتاب اللّٰہ أو أشبہ بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذت بہ، لأن معہ شیئا یقوی بمثلہ، ولیس مع الذی یخالفہ مثلہ ‘‘ [2] (جب دو شخص کسی چیز کے بارے میں دو مختلف باتیں کہیں تو میں ان میں غور کروں گا ، اگر ان دونوں میں
[1] مصدر سابق ۔
[2] مصدر سابق ۔