کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 119
پانچواں قول: ’’ما کان الکتاب والسنۃ موجودین فالعذر علی من سمعھما مقطوع الا اتباعھا‘‘[1] (کتاب وسنت جب تک موجود ہیں تو جس نے بھی ان دونوں کو سنا جانا اس کو ان دونوں کی اتباع کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اور نہ کوئی عذر اس بارے میں لائق سماعت ہے) ذرا معلوم کرو اس عبارت سے زیادہ صریح ترین عبارت کیا ہوگی ؟ یہ امام شافعی نے اس لئے کہی ہے کہ ان کے عہد سعادت مہد میں علم حدیث لوگوں میں زبانی طور پر منتشر تھا، اس کی تدوین نہیں ہوئی تھی ، منتشر حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں ، ناچار اس باب میں علم سنت نہ ہونے کے وقت اجتہاد سے کام چلتا تھا، لیکن اس کے بعد حدیثوں کے دفتر تیار ہوئے، اور منتشر حدیثیں مجموعوں کی شکل اختیار کرگئیں ، ان مسائل اجتہادیہ کو حدیث پر پیش کرنے کا کاروبار بہت آسان ہوگیا، اب ان دو روشن حجت اور برہان کے باوجود اگر کوئی رائے ، قیاس اور اجتہاد پرعمل کرے تو اس کا عذر عذر لنگ ہوگا ، بلکہ خود وہ عذر ہی مقطوع ومردود ہے، اور اس کے لئے سوائے اتباع کتاب وسنت کوئی راستہ نہیں ہے، الحمد للہ یہ کام جماعت اہلحدیث کے ہاتھ سے قدیما وحدیثا جس طرح ہونا چاہئے مقام ظہور پر خوش رفتاری سے چل پڑا ہے، اور مقلدین اس سعادت کے حصول سے محروم پڑے ہوئے ہیں ، صحاح ستہ اور دوسرے مجموعہائے سنن، معاجم اخبار اور مسانید احادیث کے موجودہ ہوتے ہوئے حدیث کی اتباع نہیں کرتے ہیں ، اور وہی تقلید کا شور با عقل کے پیالوں میں رکھتے ہیں ؎ مقلد تاخراب بادۂ آراء پرستی شد بکوئے آشنا یان سنن بیگانہ می آید ( مقلد جب آرا پرستی کی شراب میں مست ہوگیا تو علماء حدیث کے کوچہ میں اجنبی سا آتا ہے) چھٹواں قول: قول مذکور کا مؤید امام موصوف کا ایک اور قول ہے: ’’ لا یصار الی شیٔ غیر الکتاب والسنۃ، وھما موجودان، وانما
[1] مصدر سابق ص ۱۰۱۔