کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 118
اس قول میں امام شافعی نے اپنے قول کو خلاف سنت ہونے کے وقت ترک کرنے کی تصریح فرمائی ہے ، یہی عاملین حدیث میں سے غیر مقلدوں کا قول ہے کہ جس کتاب میں بھی چاہے وہ امام شافعی کی ہو یا دوسرے امام کی ، جو چیزخلاف سنت ثابت ہو جائے وہ چھوڑ دینے کے لائق ہے، اور سنت پر کاربند ہونا واجب ہے، لیکن مقلدین نے اپنے ائمہ کے اس قول کے خلاف راستہ اختیار کیا ہے، یہ لوگ جو کچھ ان کی کتاب میں پاتے ہیں اس کو دانت سے پکڑ لیتے ہیں ، اور اس لکھی ہوئی ہدایت کے خلاف سنت کی تاویل کرتے ہیں ، یہ عکس قضیہ ہے، کیونکہ طے شدہ یہ ہے کہ ہرزمانے میں تاقیامت اجتہاد سے معلوم کئے گئے مسائل کو کتاب وسنت پر پیش کرنا متعین ہے، اور یہ مقلدین کتاب وسنت کو مجتہدات پر پیش کرتے ہیں ، فأین ھذا من ذاک ؎
ترسم کہ نہ رسی بکعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تو میروی بترکستان ست
(اے دیہاتی! مجھے ڈر ہے کہ تم کعبہ نہیں پہنچ پاؤگے ،کیونکہ جس راستے پر تم چل رہے ہو وہ ترکستان کی طرف جارہا ہے)
چوتھا قول : ’’أقاویل أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا تفرقوا فیھا نصیر منھا الی ما وافق الکتاب والسنۃ‘‘[1] (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے اقوال جب مختلف ہوں تو ہم اس قول کی طرف رجوع کریں گے جو کتاب وسنت کے موافق ہو)
یہ قول اس بات پر دلیل ہے کہ کسی شخص کا قول حجت نہیں ہے، چاہے قائل صحابی کیوں نہ ہوں ، اصل قول وہ قول ہے جو قرآن وحدیث سے موافقت رکھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی معصوم نہیں ہے، صحابہ وتابعین اور تبع تابعین میں رائے واجتہاد کا حکم ایام دنیا کے آخری یوم تک ایک ہے ، تمام لوگ کتاب وسنت کے مکلف اور مجتہدات وآراء کو انہیں دونوں اصل اصیل پر پیش کرنے کے محتاج ہیں ۔
[1] مصدر سابق ص ۱۰۱۔