کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 117
میرے سر آنکھوں پر ہے)
یہ قول اس بات پر دلیل ہے کہ سلف صالح جب تک سنت سے دلیل نہیں پاتے اپنے اجتہاد اور رائے سے حکم نہیں کرتے اور سنت کی مخالفت پر غصہ کا اظہار کرتے تھے، اور ہرگز روایت پر رائے کو مقدم کرنے سے راضی نہیں ہوتے، اتباع کا مطلب یہی ہے، عرف میں اس کے خلاف کا نام تقلید رکھتے تھے۔
دوسرا قول: ’’ما من أٖحد الا وتذھب علیہ سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتعزب عنہ، فمھما قلت من قول أو أصلت من أصل فیہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خلاف ما قلت، فالقول ما قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقولوا بسنتہ ودعوا ما قلت‘‘[1]
(ہر شخص کو یہ صورت پیش آتی ہے کہ وہ حدیث بھول جاتا ہے، اور اس سے پوشیدہ رہ جاتی ہے، پس جب بھی میں کوئی قول یا اصل بیان کروں ، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے قول کے خلاف بات مروی ہو تو اصل قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے، اسی کو تم اختیار کرو اور میرا قول چھوڑ دو)
امام شافعی نے یہ کلام بار بار فرمایا ، جو اس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ کوئی شخص تمام حدیثوں کا عالم نہیں ہے، چاہے امام ہو یا اور کوئی ، قول مذکور اس بات پر دلیل ہے کہ اصول فقہ کی کوئی اصل ہو، یا فروع میں سے کوئی فرع ہو جب سنت مطہرہ کے خلاف پڑے تو وہاں قول رسول ہی معتبر ہے، اور ہر قائل کا قول جو اس کے خلاف پڑے ، اس کو چھوڑ دینا چاہئے، ، اور اس کی تقلید نہیں کرنی چاہئے، ہر حال میں سنت کا قائل ہونا ضروری ہے، شارع کا تشریع سے یہی مقصود اور اتباع سے متبع کی مراد یہی ہے۔
تیسرا قول : ’’ اذا وجدتم فی کتابی خلاف سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقولوا بسنتہ ودعوا ما قلت ‘‘ [2] (جب تم میری کتاب میں سنت رسول کے خلاف کوئی بات پاؤ تو سنت رسول ہی کو لو، اور میرے قول کو چھوڑ دو)
[1] مصدر سابق ۔
[2] مصدر سابق ۔