کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 116
طرف سے ہدایت آچکی ہے ۔) میں کہتا ہوں کہ ہندوستان کا سانحہ غدر جو ۱۲۷۳ ھ میں دہلی میں واقع ہوا، اور ہندوستان کے اکثر شہروں وبستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، وہ بھی گہری نظر سے دیکھنے پر اہل مذاہب کے انہیں بھونچالوں اور تہلکوں کا نتیجہ ہے، علامہ فلانی کے قول میں بلاد مغرب سے مراد اندلس اور اس کے مضافات ہیں ، جن میں فرنگی عیسائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے سروں پر بلائے عظیم ٹوٹ پڑی تھی ، جیسا کہ اس مصیبت عظمی کا مرثیہ ریحانۃ الالباء میں مذکور ہے، اور بلاد مشرق سے مراد حادثۂ بغداد ہے، جو چنگیزخاں کی اولاد کے ہاتھوں ظاہر وواقع ہوا، اس حادثہ میں اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا، یہاں تک کہ اس کی بے کسی آج بھی روز افزوں ہے۔ حاصل یہ کہ علماء مالکیہ نے تقلید کے رد اور اتباع کے اثبات میں اپنے امام کی بہت سی نقول اپنی کتابوں میں ذکر کی ہیں ، ابن عبد البر کی کتاب العلم اس باب کی اکثر وبیشتر چیزوں کی جامع ہے۔ اقوال امام شافعی قول اول: ایک شخص نے امام شافعی سے مسئلہ پوچھا ، انہوں نے کہا: ’’یروی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال کذا وکذا‘‘ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے یہ یہ فرمایا ہے) سائل نے کہا: ’’أتقول بھذا؟ ‘‘ آپ بھی اسی کے قائل ہیں ؟ امام صاحب لرز گئے ، ان کا رنگ زرد ہوگیا اور کہا: ’’ ویحک أی أرض تقلنی وأی سماء تظلنی اذا رویت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ولم أقل بہ، نعم علی الرأس والعین‘‘[1] (تم پر افسوس ہے ، بھلا کون سی زمین میرا وجود برداشت کرے گی، اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہوگا، جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کروں اور اس کو اختیار نہ کروں ؟ ہاں ہاں حدیث رسول
[1] ایقاظ الہمم ص ۱۰۰ ۔