کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 115
ترکتھما فیکم لن تضلوا ما تمسکتم بھما، کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ‘‘[1] (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں جوارشاد فرمایا ہے اس کو لازم پکڑو، جو یہ ہے، میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں ، جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہوگے کبھی گمراہ نہیں ہوگے)
کسی چیز کے امرکا مطلب اس کی ضد سے نھی ہوتا ہے، یہاں ہر دو امر کی نشان دہی فرمائی ہے، ایک قرآن ، دوسرے حدیث، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے چوتھے امر کا ذکر نہیں کیا ہے، کیونکہ بدعت عدم ذکر کے ذریعہ علاحدہ کردی جاتی ہے۔
قول سوم: امام مالک کا تیسرا قول یہ ہے۔
ایک شخص نے امام مالک سے مسئلہ دریافت کیا، جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے، اس نے کہا: آپ اپنی رائے بیان فرمایئے، امام صاحب نے یہ آیت پڑھی ۔[2]﴿ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ [3] (جولوگ رسول کا حکم نہیں مانتے ان کو ڈرنا چاہئے کہ ان پر کوئی مصیبت آن پڑے، یا ان کو دردناک عذاب پہنچے۔)
اس جواب میں دلیل سے رائے پر رد ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت سے ڈرایا گیا ہے، ساتھ ہی ان کو دنیا میں مصیبت اور آخرت میں درناک عذاب پہنچنے کی وعید ہے۔
شیخ فلانی نے کہا ہے کہ بعض بلاد مغرب پر فرنگی نصرانیوں کے غلبہ اور بلاد مشرق پر تاتاریوں کے مسلط ہونے کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ مذہبی فرقہ بندیوں ، تعصب کی کثرت اور دین میں رائے کی تقلید عام ہوگئی ہے، ’’کل ذلک من اتباع الظن وما تھوی الأنفس، ولقد جاء ھم من ربھم الھدی‘‘ انتھی۔ (یہ ساری آفتیں گمان ورائے اور خواہش نفس پر چلنے کی وجہ سے آئی ہیں ، حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی
[1] موطا کتاب الجامع ، باب النہی عن القول فی القدر ، حاکم ۱ / ۹۳ ، حسن۔
[2] ایقاظ الہمم ص ۹۱ ۔
[3] سورۃ النور : ۶۳۔