کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 114
اصول کا مقررہ قاعدہ یہی ہے کہ ہر مجتہد خطا بھی کرتا ہے، اور صواب بھی، اور صواب ایک مجتہد کے ساتھ ہوگا، سب کے ساتھ نہیں ، امام مالک کا یہ کمال انصاف ہے کہ اظہار حق میں کوئی شرم نہیں کی ، اور اپنا ذمہ تقلید کے بارگراں سے مبرا کیا، یہی تمام قدیم وجدید ائمہ کی شان ہے۔ امام مالک نے دوسری بار فرمایا: ’’لیس کل ما قال رجل قولا فان کان لہ فضل یتبع علیہ [1] لقول اللّٰہ تعالی ﴿ فَبَشِّرْ عِبَادِ ‎﴿١٧﴾‏ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ﴾ [2] (کسی آدمی کا ہر قول لائق قبول نہیں ہے، اگر اس کو فضیلت حاصل ہے تو اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق اس کی اتباع کی جائے گی ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: میرے ان بندوں کو خوش خبری سنادو جو بات کو سنتے ہیں ، پھر جو بات بہتر ہوتی ہے اس کی پیروی کرتے ہیں ) اس قول میں تصریح ہے کہ اہل فضل کی ہر بات لائق پیروی نہیں ہے، اس پر آیت کو دلیل کے طور پر لائے ہیں ، اور یہ دلیل احسن اقوال کی اتباع پر دال ہے، اور احسن قول وہی ہے جو موافق کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہو، بس ، یہ دلالت احسن طریقہ پر تقلید کا رد کرتی ہے، اس کے رد کی دلیلیں قرآن شریف میں بہت ہیں ، ہم نے الدین الخالص میں تقریبا تیس آیتیں اس مدعا پرذکر کی ہیں ، ان میں سابق امتوں ، گذشتہ مذہبوں ، پرانی ملتوں اور قدیم شریعتوں کے کفار کی تقلیدی حکایتیں بیان کی گئی ہیں ، اور کتاب دلیل الطالب میں مذکور ہے کہ یہ سنگین بیماری یہود بلکہ ہنود سے اس امت میں در آئی ہے، اور حدیث ’’ لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَن قَبْلَكُمْ ‘‘ الحدیث [3] ( تم لوگ پہلی امتوں کے طریقوں پر چلوگے ) کا مصداق مشاہدہ میں آچکا ہے۔ قول دوم : امام مالک کا دوسرا قول یہ ہے: ’’الزم ما قالہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع [4] ’’أمران
[1] مصدر سابق ص: ۸۶۔ [2] سورۃ الزمر : ۱۸۔ [3] بخاری انبیاء : ۳۴۵۶، مسلم علم : ۲۰۵۴ ۔ [4] ایقاظ الہمم ص ۹۹۔