کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 113
اس کا ایک بڑا سبب یہ ہوا کہ بغداد کی تباہی کے بعد اہلحدیث اور اصحاب مذاہب متبوعہ کی کتب مدونہ ضائع ہوگئیں ، ﴿ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا﴾[1] (اللہ کا کام مقرر ٹھہر چکا ہے) بایں ہمہ تقلید رجال کے فتنہ سے پہلے امام عالی مقام سے ان جیسے اقوال کا صادر ہونا ان کی کرامات برکت آیات میں سے ایک کرامت ہے ، اللہ تعالی ان سے راضی ہو، ہماری اور تمام مسلمانوں کی طرف سے ان کو جزائے خیر عطا فرمائے، جس طرح امام اعظم نے اس باب میں مبالغہ اور شدت اختیار کی ہے، اسی طرح باقی تینوں ائمہ نے بھی اپنی اور دوسروں کی تقلید سے ڈرایا اور منع کیا ہے، ان لوگوں کے اقوال کے چند نمونے بھی حق نگار قلم کے حوالے کئے جارہے ہیں ، تاکہ معلوم ہو جائے کہ تقلید اصطلاحی تنہا امام اعظم کے نزدیک ممنوع وحرام نہیں ہے، بلکہ دوسرے تینوں امام بھی اپنے متقدمین کی اقتدا کرتے ہوئے اس امام عالی مقام کے ہم زبان ہیں ، کأنھم شقائق النعمان فی ھذا البیان ۔ اقوال امام مالک قول اول : امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’انما أنا بشر أخطیٔ وأصیب، فانظروا فی رأیي، فکل ما وافق الکتاب والسنۃ فخذوہ، وکل ما لم یوافق فاترکوہ‘‘[2] (میں صرف ایک انسان ہوں ، مجھ سے غلطی اور درستی دونوں ہوتی ہے، پس میری رائے میں غور کرلیا کرو، جو چیز کتاب وسنت کے موافق ہواسے لے لو اور میری ہر وہ بات جو ان دونوں کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو) اس قول میں اس امر کی تصریح ہے کہ اسلام کی اصل اصول یہی دو چیزیں ہیں ، قرآن اور حدیث، ان دونوں کے ساتھ تیسرا چوتھا کچھ نہیں ، امام مالک نے انہیں دونوں کو معیار اجتہادات قرار دیا ہے، یہی اہل اتباع کا مذہب ہے، اور غلطی کو اپنی طرف منسوب کیا ہے، علم
[1] سورۃ الاحزاب: ۳۸۔ [2] ایقاظ الہمم ، ص: ۷۲۔