کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 112
امام صاحب کے اقوال میں سے ان مذکورہ سات اقوال کی بطور نمونہ اس جگہ نشاندہی کی گئی ہے، ورنہ شیخ محمد حیات سندی رحمہ اللہ نے کہا ہے:
’’ لو تتبع الانسان النقول لوجد أکثر مما ذکر، قال: ودلائل العمل بالخبر أکثر من أن تذکر‘‘[1] (اگر کوئی انسان امام صاحب سے مروی اقوال کا تتبع کرے تو مذکورہ اقوال سے بہت زیادہ پائے گا ، مزید کہا: حدیث پر عمل کے دلائل اتنے زیادہ ہیں کہ ان سب کو ذکر نہیں کیا جاسکتا )
فی الواقع امام صاحب ان کے تلامذہ اور دیگر متقدمین حنفیہ سے بہت سی نقول کتب حنفیہ میں مذکور ہیں ، یہ مختصر کتاب ان سب کے نقل کرنے کی تاب نہیں رکھتی ہے، جس کو قلیل سے تشفی نہ ہو اس کے لئے کثیر بھی نفع بخش نہیں ہوتا ۔
ان کتابوں کے نام جن میں یہ ساتوں اقوال مرقوم ومنقول ہیں ، ہماری کتاب الدین الخالص میں ان اقوال کے نشان ومکان مفصل مذکور ہیں ۔ (٭)
حضرت امام علیہ الرحمۃ نے یہ ارشادات اس وقت فرمائے ہیں جب زمانہ، تقلید کا زمانہ نہ تھا ، اور کوئی شخص اس نامبارک لفظ کا نام ونشان بھی نہیں جانتا پہچانتا تھا، کیونکہ باتفاق اہل علم اس بدعت کا ظہور قرون مشہود لہابالخیر کے بعد ہوا ہے، اور ۴۰۰ھ میں اس کی ابتداء تھوڑی تھوڑی عوام میں رونما ہوئی، یہاں تک کہ دار السلام بغداد سے سلطنت اسلامیہ کے زوال کے بعد جاہلوں اور عوام نے ان چاروں اماموں کی تقلید کے وجوب پر اتفاق کرلیا، میں نے غلط کہا، تقلید کے وجوب پر متفق نہیں ہوئے بلکہ تقلید میں ان کو علم وعمل کی سہولت نظر آئی، اور خود کو دور اول کے علوم سے متصف ہونے اور عاجل پر آجل کے اختیار کرنے سے قاصر پایا ، تو ان مذاہب کی موافقت کر بیٹھے۔
[1] مصدر سابق ص ۷۱۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ نے امام اعظم کے مذکورہ ساتوں اقوال کے مصادر اپنی کتاب ’’الدین الخالص‘‘ جلد دوم ، ص : ۲۳ ، ۴۲۲ میں ذکر کئے ہیں ، جو شیخ فُلاّنی کی کتاب ’’ایقاظ الھمم أولی الأبصار‘‘ سے منقول ہیں، جیسا کہ ہم نے ان اقوال کی تخریج میں اس کتاب کے صفحات کی نشاندہی کی ہے۔ (مترجم)