کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 110
اس قول میں چار چیزوں کوماخذ کہا ہے، پہلی دو چیزوں (کتاب وسنت) کے ماخذ ہونے میں خود اجماع امت بھی ہے، تیسرا ماخذ اجماع امت ایسی چیز ہے جو پہلے دونوں ماخذوں کی محتاج ہے، رہا چوتھا ماخذ قیاس، تو اس کا مقام عدم دلیل کا مقام ہے، اور اس کا انکار اس جیسی حالت میں کوئی نہیں کرتا ہے، یہاں تک کہ ظاہریہ بھی قیاس جلی کے قائل ہیں ، اور علی الاطلاق اس کا انکار نہیں کرتے ہیں ، اجماع امت کا حال یہ ہے کہ اس کا علم بہت ہی مشکل چیز ہے، اسی لئے امام احمد جو ائمہ اربعہ میں چوتھے امام ہیں ، انہوں نے اجماع امت کا انکار کیا ہے، اور قیاس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ مردار کی طرح ہے، جس کا کھانا اضطرار کے وقت جائز ہوتا ہے۔ اب دوہی ماخذ رہ جاتے ہیں ، ایک کتاب اللہ ، دوسرے سنت رسول ، جو ہر علاقے اور تمام اطراف وجوانب کے ہر چھوٹے بڑے کے ہاتھ میں موجود ہیں ، اور فنائے عالم تک عالم میں باقی رہنے والے ہیں ، یہی دونوں نصوص کے خصوص اور دلیلوں کے عموم کے ساتھ تمام احکام ومسائل میں کفیل ہیں ، لیکن ان کی اہمیت ان لوگوں کے نزدیک ہے جوان دونوں کا فہم رکھتے ہیں ، اور ہدایت کے لئے تمام مشغلوں کے عوض انہیں کو اختیار کئے ہیں ، یہ دونوں ان لوگوں کے لئے کارآمد نہیں ہیں جو اللہ اور رسول کی محبت کی حلاوت سے دور پڑے ہیں ، اور احبار ورہبان ، فقہاء ومشایخ کی محبت ان کے حواس پر چھائی ہوئی ہے، یہ بحث بہت طویل ہے، بڑی بڑی کتابوں میں اپنے مقام پر منقح اور صاف ہو چکی ہے، بہرحال امام ہمام کی عبارت کا مقصود یہ ہے کہ جب تک ان کے قول کا ماخذ نہ معلوم ہو جائے ان کی تقلید ترک کردینی چاہئے ، اور جب ماخذ معلوم ہوگیا اور مدلول کو دلیل کے موافق پایا تو تقلید پاشی بھی ہوگئی اور اتباع کا منصب بھی ہاتھ آیا، اللہ تعالی توفیق بخشے۔ ساتواں قول: امام صاب نے فرمایا: ’’اذا جاء عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فعلی الرأس والعین، واذا جاء عن أصحاب