کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 108
مدعیوں کی امام کے ساتھ مخالفت ہے ، متبعین سنت کی طرف سے امام صاحب کی مخالفت نہیں ہے، کیونکہ یہ لوگ امام صاحب کے قدم بقدم چل رہے ہیں ، اور ان کے قول کو امام الکلام جانتے ہیں ، ان کی بات کے آگے دوسروں کی بات سننا اختیار تقلید اور ترک اتباع سے کم تر گناہ نہیں جانتے ہیں ، ان سے ہرگز یہ بے ادبی نہیں ہوسکتی ہے کہ امام کے قول کو چھوڑ دیں اور تقلید امام کے مدعیوں کے قول کو امام کے قول پر ترجیح دیں ، یہ کام مقلدوں کو مبارک ہو ع ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند (یہ گھٹیا کام تمہارا ہے، مردان حق اس سے بلند کام کرتے ہیں )
چوتھا قول:
امام صاحب فرماتے تھے :
’’اذا صح الحدیث فھو مذہبی‘‘[1] (جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے)
یہ تعلیق وشرط اس وجہ سے ہے کہ امت میں سے کسی کو چاہے امام ہو یا ماموم ، احادیث نبویہ کا احاطہ حاصل نہیں ہے، جب کہ دین میں حدیث پر عمل ہے، پس جب کوئی صحیح حدیث آجائے تو اس پر عمل متعین ہوگا، امام صاحب نے اس تعیین کو اپنے مذہب کی علامت ونشان بتایا ہے، یہی جمہور علماء محدثین وصوفیہ اور متبعین سنت کا قول ہے، اور شک نہیں ہے کہ ابواب کثیرہ میں بہت سی احادیث امام صاحب کے بعد مرتبہ صحت کو پہنچی ہیں ، اور علم حدیث میں جوامع، سنن، معاجم، مسانید، اجزاء اور ان کے سوا انواع واقسام کی مؤلفات وجود میں آچکی ہیں ، پس صحیح ثابت ہونے کے بعد ان پر عمل کرنا امام ہمام کا عین مذہب ہے، ظاہر ہے کہ ان پر عمل کرنا رائے کا ترک کرنا ہوگا، وھو المطلوب۔
یہیں سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ امام صاحب کی درست وراست تقلید اہل اتباع کی جانب سے ہوئی ہے، نہ کہ اہل تقلید واہل بدعت کی طرف سے ، کیونکہ حدیث کتنی ہی صحیح ہو ، اور اس فن کے ناقدین اس کی صحت کا حکم لگائیں ، مقلدین مذہب اس کو اپنا مذہب نہیں بناتے ہیں ، بلکہ متباین رایوں اور مختلف من پسند چیزوں کو جو کسی بناؤٹی مذہب والے
[1] مصدر سابق ص ۵۲، ۶۲۔