کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 107
’’من أین قلنا‘‘ سے مراد یہ ہے کہ فروع صرف اصول کے موافق ہوں ، جو کتاب وسنت سے عبارت ہیں ، اس کے علاوہ اس کا اور کوئی معنی نہیں ہے، عجیب بات یہ ہے کہ اگر کسی کو امام ہمام کی دلیل پر اطلاع ہو جائے تو ضروری نہیں ہے کہ اس کی اتباع امام کی فہم کے مطابق کرے، خاص کر اس وقت جب اس مسئلہ میں دوسری دلیل صحت وشہرت اور قبولیت کے لحاظ سے زیادہ راجح ہو، بلکہ کئی دلیلوں کے اجتماع کے وقت پہلا قاعدہ جمع وتطبیق ہے، پھر ترجیح کا طریقہ ہے۔
وجوہ ترجیح :
متعارض دلیلوں میں وجوہ ترجیح کی تعداد ایک سو سے زائد ہے، جیسا کہ حصول مامول کے آخر میں بیان کیا گیا ہے، من جملہ ایک یہ ہے کہ وہ حدیث صحیحین میں موجود ہے، اور اکابر امت کے اجماع سے صحیحین کو امت میں تلقی بالقبول حاصل ہے، پس ان کے علاوہ سنن ومعاجم اور اجزاء کی حدیث ان کی حدیث کے ساتھ برابر نہیں چل سکتی ہے، چاہے کتنا ہی کسی نے خرق اجماع کا ارتکاب کرتے ہوئے اس مدعا کے خلاف فتوی دیا ہو، یا اب دے۔
تیسرا قول :
امام صاحب اور ان کے خلیفہ راشد وتلمیذ صادق ابو یوسف رحمہ اللہ دونوں نے کہا ہے: ’’لا یحل لأحد أن یأخذ بقولنا ما لم یعلم من أین أخذنا۔‘‘ [1]
( کسی کے لئے حلال نہیں ہے کہ ہمارے قول کو مانے جب تک کہ یہ نہ جان لے کہ ہم نے کس دلیل سے اس کو لیا ہے)
ان دونوں اماموں کا یہ قول ان کے پہلے دونوں قول کی طرح تقلید سے نہی کا فائدہ دینے میں صریح اور اس کی تحریم پر نص ہے، اگر متاخرین علماء وائمہ کی کوئی جماعت دلیل وماخذ نامعلوم ہونے کے وقت تقلید کی تحریم اور اس کی عدم حلت کی قائل ہوئی ہے تو وہ جناب امام ہمام کی عین موافقت کی طرف کود پڑی ہے، یہاں پر جوخلاف بات ہے وہ تقلید امام کے
[1] مصدر سابق ص ۵۳۔