کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 106
قصور وار غیر معذور ہیں ۔ امام صاحب کا قول مذکور تقلید سے منع کا فائدہ دیتا ہے ، اور بلند آواز سے اعلان کررہا ہے کہ اصل قول اللہ ورسول کا قول ہے، بلکہ آپ کے صحابہ کا قول ہے، نہ کہ امام کا قول ہے، خاص کر جب امام کا فتوی ان تینوں کے اقوال کے مخالف پڑے، اور ’’اترکوا قولی‘‘ ترک تقلید پر محکم دلیل ہے، کیونکہ تقلید اسی بات سے عبارت ہے کہ کوئی شخص دوسرے کا قول بغیر دلیل قبول کرے، اور اس کو دلیل یا اصول میں سے کوئی اصل سمجھ کر اس کے موجب پر کاربند ہوجائے، کیونکہ جس قول کے ساتھ آیت یا سنت کی دلیل ہے، اس کا قائل اس دلیل شرعی کا قائل ہے، اس قول کا قائل نہیں ہے، اس لئے باتفاق اکابر امت ، علماء محدثین اور عارفین سنت سے روایت قبول کرنا تقلید میں داخل نہیں ہے۔ دوسرا قول: ’’لا یحل لأحد أن یفتی بقولنا ما لم یعلم من أین قلنا ‘‘ [1] (کسی کے لئے ہمارے قول پر فتوی دینا حلال نہیں ہے، جب تک کہ وہ ہمارے قول کی دلیل نہ جان لے) اس قول میں امام صاحب نے اپنے بے دلیل قول پر فتوی دینے کو غیر حلال وناجائز بتایا ہے، جو اس کے حرام ہونے سے عبارت ہے، یہی ائمہ کی شان ہے، اگر اس طرح نہ فرماتے تو امام نہ ہوتے ، اور پہلے قول کا مفہوم ومضمون تقلید سے نہی پر دلیل ہے، لیکن مقلدین اس قول کے خلاف راہ چل رہے ہیں ، امام صاحب کی یاان کے شاگردوں کی جو باتیں ان کو پہنچی ہیں وہ سب منقطع السند ہونے اور ان کے اتصال پر قدرت نہ رکھنے کے باوجود انہیں پر قضاء وافتاء فرماتے ہیں ، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع حدیث جو بواسطہ اہل آثار متصل سند کے ساتھ ان کو پہنچی ہے، اسے اقوال کے مقابل میں ترک کر دیتے ہیں ، اور کوئی وزن نہیں دیتے ، یہ شیوہ امام مشہود بالخیر کے مقصود کے عین ضد ہے۔
[1] مصدر سابق ص ۵۱۔