کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 105
قول اول : ’’اذا قلت قولا وکتاب اللّٰہ یخالفہ فاترکوا قولی لکتاب اللّٰہ ، فقیل: اذا کان خبر الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخالفہ؟ قال: اترکوا قولی بخبر الرسول، فقیل: اذا کان قول الصحابۃ یخالفہ؟ قال: اترکوا قولی بقول الصحابۃ‘‘[1] (جب میں کوئی بات کتاب اللہ کے خلاف کہوں تو میرا قول چھوڑ کر کتاب اللہ کو پکڑو، لوگوں نے کہا جب آپ کا قول حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہو تو ؟ کہا میرا قول چھوڑ کر حدیث کو لو، پھر سوال ہوا کہ جب آپ کا قول صحابہ کے قول کے مخالف ہو تو ؟ فرمایا میرا قول چھوڑ دو اور صحابہ کا قول اختیار کرو)۔ قول مذکور میں حضرت امام کے انصاف کا کتنا زبردست مظاہرہ ہے کہ اپنے قول کو صحابی کے قول پر بھی تقدیم دینے کے روادار نہیں ہیں ، پھر تو قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب اللہ عزوجل پر تقدیم کی بات بہت دور ہے، لیکن امام ہمام کے مقلدوں کا حال یہ ہے کہ ان کی منشأ کے خلاف ان کے قول کو قول رسول پر ترجیح دیتے ہیں ع ببیں تفاوت رہ از کجا ست تابکجا (یہ فرق وتضاد دیکھو کہ راستہ کہاں سے کہاں پہنچا ۔) اگر کہو کہ اس دعوی کی دلیل ونشان چاہئے، تو ہم بطور ثبوت کہیں گے کہ فقہ حدیث اور فقہ رائے کی کتابوں میں دیکھنا چاہئے کہ کس قدر قیاسات اور مذہب خاص کے قضایا واحکام عام طور پر خلاف سنت واقع ہوئے ہیں ، اور مقلدین ان جگہوں میں اپنے مذہب کو ہرگز نہیں چھوڑتے ہیں ، اور مذہب مخالف حدیثوں وسنتوں کو قبول کرنے کے لئے سر نہیں جھکاتے ہیں ، مثلا نمازکے چار مواقع میں رفع الیدین، آمین بالجہر ، اور قراء ۃ خلف الامام کے مسائل ، اس میں شک نہیں کہ اگر حضرت امام کویہ حدیثیں پہنچی ہوتیں تو ہرگز ان کے خلاف حکم نہیں کرتے ، وہ اس قسم کے مسائل کے قائل نہ ہونے میں ماجور ہیں ، جب کہ یہ مقلدین
[1] ایقاظ الھمم ص ۵۰ ۔