کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 101
ہیں ، کیونکہ ان ائمہ کی تقلید واجب قرار دینے کی بنا پر ان کی مدح وستائش میں یہاں تک دوڑ لگائے ہیں کہ حد سے تجاوز کرنے کی صورت پیدا ہوگئی ہے، اور ان کے مقابل لوگ اس بات پر مجبور ہوئے کہ احکام ومسائل میں خطا سے امام صاحب کی عدم معصومیت کو بیان کریں ، ساتھ ہی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کسی حکم ومسئلہ میں امام صاحب سے کوئی خطا ثابت ہو تو اس خطا کا صدور ان دس قسم کے اسباب اور بارہ طرح کی وجوہات جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے کی بنا پر صحیح ہے، ان سب کے باوجود آں امام عالی مقام کے بارے میں اس طرح کی گفتار وکردار کے لئے ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ سارا جمود وتعصب امام ہمام کی تقلید کے مدعیوں کی جانب سے ہے، عالی مقام مجتہد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، بے شبہ یہ خطا پر بھی ماجور ہیں ، اس کے برخلاف ان کے مقلدین اپنی خطیات وہفوات میں غیر معذور ہیں ، وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى ۔ اس قوم کا حال یہ ہے کہ اپنی عجیب وغریب نازیبا حرکتوں اور باہمی مباحث میں معارض ومتضاد اقوال وافعال اختیار کرکے ائمہ کے حق میں بدادبی کی راہ پر دوڑتے ہیں ، اور حق صریح چھوڑ کر باطل زاہق کو گلے لگاتے ہیں ، ان کے ان کرتوتوں سے ہمارا دل سخت رنجیدہ رہتا ہے، حاشا ، ہماری نگاہ میں ان ائمہ اور خیر القرون کے بزرگوں جن کے فضائل ومناقب معلوم اور کتب صحیحہ میں مرقوم ہیں ، ان سب کی بزرگی اور شان کی بلندی میں کوئی تفاوت نہیں ہوگا، اور ان بزرگوں کی جانب ہمارے دل میں کسی بدگمانی کا گذر نہیں ہونے پائے گا، ونعوذ باللّٰہ من جمیع ما کرہ اللّٰہ ۔ اگر یہ بزرگان دین نہ ہوتے تو قرآن کریم کو ہم تک کون پہنچاتا ، اور اجتہاد کا دروازہ ہم پر کون کھولتا ، ملت کے یہ حاملین نبوت اور ناقلین روایات جب مطعون ومجروح اور مظنون بد ہوں گے تو وہ کون ہے جس سے سلف صالح عبارت ہوگی ، یہ طریقہ خاص بدذات شیعہ کا شیوہ ہے، جو اہل تقلیدکے جاہلوں میں در آیا ہے ، اور اس جنون میں وہ اپنا سرمایۂ ایمان بھی ہار بیٹھے ہیں ، اللھم اغفر۔