کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 100
پس اگر امام اعظم نے انہیں اصحاب کے رنگ میں جن سے دو تین یا چند حدیثوں کے سوا مروی نہیں ہے، حدیث کم روایت کیا تو کون سی قباحت ہے۔
رہا علم نحو تو یہ مرتضوی ایجادات میں سے ہے، تمام صحابہ نے اس ایجاد کردہ طریقہ پر عمل نحو کی مزاولت نہیں کی ہے، بلکہ خود ان لوگوں کو اس علم کے نام ونشان سے واقفیت بھی حاصل نہیں رہی ، جو شخص ان امور جیسی باتوں کو آں امام مقبول کی تحقیر پر محمول کرتا ہے، وہ سخت نامعقول ہے، اس نے خیر القرون کی کوئی قدر نہیں پہچانی، اور غائب کو حاضر پر قیاس کرنے کی غلطی کی۔
واضح رہے کہ امام صاحب یا دوسرے ائمہ کی تقلید کا رد کرنا ، بالخصوص سنت صحیحہ کے معارض اور حدیث محکم کے مخالف ان کے قول کا انکار کرنا دوسری بات ہے، اور عالی قدر ائمہ کا نقص بیان کرنا امر دیگر ہے، پہلا حق صریح ہے، اور دوسرا باطل وقبیح، با ایں ہمہ ان ائمہ اور دوسرے ائمہ مجتہدین کی طرف سے بہت سے صحیح عذر شروع کتاب میں شیخ الاسلام کی زبان سے بیان ہو چکے ہیں ، ان تمام عذروں کے باوجود ان بزرگان دین کے فضل کبیر میں اب کون سی تقصیر کی گنجائش باقی ہے؟
اس میں شک نہیں ہے کہ بعض مقلدین حنفیہ اس باب میں ایسا زعم کرتے ہیں کہ ان ائمہ کی تقلید کا منکر ان کی تحقیر کرنے والا ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے اور لازمِ مذہب مذہب نہیں ہوگا، اگر کسی جاہل نے جو حضرت امام ہمام کے فضائل سے غافل اور زیور انصاف سے عاری ہے، ایسا کیا ہے تو اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے نامۂ اعمال کو سیاہ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا ہے ؎
واذا أتتک مذمتی من ناقص
فھی الشھــادۃ لی بأنی کامل
(جب کوئی ناقص شخص تم سے میری برائی بیان کرے تو یہ میرے کامل ہونے کی دلیل ہے)
ظاہر بات یہ ہے کہ اس باب میں عام شور وشغب کا باعث یہی مقلدین حضرات