کتاب: ایک ہزار منتخب احادیث ماخوذ از بخاری شریف - صفحہ 4
بہت احسان کرتے اور نہایت سخی تھے۔ ایک دفعہ امام بخاری رحمہ اللہ بیمار ہوئے۔ ان کا قارورہ (پیشاب کی رپورٹ) طبیبوں کو چیک کرایا گیا تو ا نہوں نے کہا یہ قارورہ تو اس شخص کا ہے جس نے کبھی سالن نہ کھایا ہو۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تصدیق کی اور کہا کہ چالیس سال سے میں نے سالن نہیں کھایا (یعنی روکھی روٹی پر قناعت کی) طبیبوں نے کہا اب آپ رحمہ اللہ کی بیماری کا علاج یہ ہے کہ سالن کھایا کریں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے قبول نہ فرمایا۔ بڑے اصرار سے یہ قبول کیا کہ روٹی کے ساتھ کچھ کھجور کھا لیا کریں گے۔ محمد بن منصور فرماتے ہیں ہم ابو عبداﷲ بخاری رحمہ اللہ کی مجلس میں تھے۔ ایک شخص نے آپ رحمہ اللہ کی داڑھی میں سے کچھ کچرا نکالا اور زمین پر ڈال دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے لوگوں کو جب غافل پایا تو اس کو اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ جب مسجد سے باہر نکلے تو اس کو پھینک دیا (گویا مسجد کا اتنا احترام کیا)﴾ امام بخاری رحمہ اللہ کا حافظہ: امام بخاری رحمہ اللہ کو اﷲ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ اور ذہن عطا کیا تھا۔ ایک مرتبہ بغداد آئے، محدثین جمع ہوئے اور آپ رحمہ اللہ کا امتحان لینا چاہا، امتحان کی ترتیب یہ رکھی کہ دس آدمیوں نے دس دس حدیثیں لے کر ان کے سامنے پیش کیں، ان احادیث کے متن (عبارت) اور سندوں کو بدلا گیا، متن ایک حدیث کا اور سند دوسری حدیث کی لگا دی گئی۔ امام بخاری رحمہ اللہ حدیث سنتے اور کہتے، مجھے اس حدیث کے بارے میں علم نہیں جب سارے محدثین اپنی دس دس حدیثیں سنا چکے اور ہر ایک کے جواب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں، تو سارے لوگ ان سے بدظن ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ کیسے امام ہیں کہ100 احادیث میں سے چند حدیثیں بھی نہیں جانتے۔ امام بخاری رحمہ اللہ پہلے شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگے تم نے پہلی حدیث یوں سنائی تھی اور پھر صحیح حدیث سنائی دو سری حدیث کے بارے میں فرمایا کہ تم نے یہ حدیث اس طرح سنائی تھی جب کہ صحیح یہ ہے اور پھر صحیح حدیث سنائی، مختصر یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دس کے دس آدمیوں کی مکمل حدیثیں پہلے ان کے ردّو بدل کے ساتھ سنائیں اور پھر صحیح اسناد کے ساتھ حدیثیں سنائیں۔ اس مجلس میں امام صاحب کی اس طرح حدیثوں کی صحت، پر سارا مجمع حیران اور خاموش تھا، علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ یہ واقعہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں، یہاں امام بخاری رحمہ اللہ کی امامت تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ تعجب یہ نہیں