کتاب: ایک ہزار منتخب احادیث ماخوذ از بخاری شریف - صفحہ 282
نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں ‘‘ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں اے عمر ! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک تم اپنے نفس سے بھی زیادہ مجھ سے محبت نہ کرو۔‘‘یہ سن کر حضرت عمرص نے عرض کیا ’’ اگر یہی بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے نفس سے بھی زیادہ مجھے محبوب ہیں۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں اے عمر( رضی اللہ عنہ)! اب تمہارا ایمان مکمل ہوا‘‘﴿وضاحت:انسان کا اپنی جان سے محبت کرنا فطری امر ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بات کے پیش نظر پہلی بات کہی لیکن جب اس بات کا ا نکشاف ہوا کہ دنیاوی اور اُخروی ہلاکتوں سے حفاظت کا سبب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے تو فوراً پہلے موقف سے رجوع کرکے اعلان حق کردیا۔یہی ہر مومن کی شان ہوتی ہے ( فتح الباری)﴾
920۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں بیٹھے فرما رہے تھے:’’رب کعبہ کی قسم! وہ لوگ بہت نقصان میں ہیں۔ رب کعبہ کی قسم! وہ لوگ بہت نقصان میں ہیں۔‘‘ میں نے سوچا مجھے کیا ہوا،کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ میں کوئی عیب نظر آتا ہے ؟میں نے کیا کیا؟ آخرکار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرما رہے تھے تو میں خاموش نہ رہ سکا اور غم و فکر جو اﷲتعالیٰ کو منظور تھا مجھ پر طاری ہوگیا۔پھر میں نے عرض کیا:’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں وہ کون لوگ ہیں ؟‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ وہی لوگ جن کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے۔ البتہ ان سے وہ مستثنیٰ ہیں جو اپنے مال کو ادھر ادھر(سامنے، دائیں اور بائیں)اﷲتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔‘‘
﴿وضاحت:بخاری کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مال و دولت کی کثرت رکھنے والے قیامت کے دن قلت کا شکار ہوں گے یعنی ثواب حاصل