کتاب: ایک ہزار منتخب احادیث ماخوذ از بخاری شریف - صفحہ 281
سبب عذاب دے تو یہ ظلم ہوگا اور اﷲتعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتاہے۔ اس لئے ثابت ہوا کہ گناہ انسان اپنی مرضی اور اپنے فیصلہ سے خود کرتاہے اللہ تعالیٰ کا اس پر کوئی جبر نہیں ہوتاہے۔
﴿حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : تقدیرکے معاملے میں بحث کرنا منع ہے۔ ( مسلم )﴾
کتاب الایمان و ا لنذ ور .... قسم اور نذر کا بیان
917۔ حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا:’’اے عبدالرحمٰن بن سمرہ ( رضی اللہ عنہ)! تم سرداری اور امیری کے طلبگار نہ بننا کیونکہ اگر درخواست پر تجھے سرداری ملے گی پھر تواسی کو سونپ دیا جائے گااور اگر وہ تجھے بغیر مانگے دی گئی تو اس پر تیری مدد کی جائے گی اور اگر تو کسی بات پر قسم اٹھائے پھر اس کے خلاف کرنا تجھے اچھا معلوم ہو تو قسم کا کفارہ دے کر وہ کام کر جو بہتر ہے۔
﴿وضاحت:اگر کوئی مانگ کر عہدہ(سردار یا امیر یا گورنر) لیتاہے تو اﷲتعالیٰ کی توفیق اور اسکی رحمت سے محروم رہتاہے۔اگر بغیر مانگے عہدہ دیا جائے تو اﷲتعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ متعین کردیا جاتا ہے جو اسے صحیح اور درست رہنے کی تلقین کرتا رہتا ہے (فتح الباری)﴾
918۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہم دنیا میں توپہلی امتوں کے بعد آئے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:’’اگر تم میں سے کوئی اپنے گھر والوں کے متعلق اپنی قسم پر بضد ہو تو یہ اﷲتعالیٰ کے نزدیک اس کا مقرر کردہ کفارہ ادا کرنے سے زیادہ گناہ ہے۔‘‘﴿وضاحت: مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی غصہ میں آکر ایسی قسم اٹھا لے جس پر قائم رہنے سے گھر والوں کو نقصان پہنچتا ہو تو ایسی قسم کا توڑ ڈالنا بہتر ہے اور قسم توڑنے کی تلافی کفارہ سے ہوسکتی ہے (فتح الباری)﴾
نوٹ:قسم کاکفارہ10مسکینوں کوکھاناکھلانا یا تین روزے رکھنا یا ایک غلاام آزاد کرناہے)
919۔ حضرت عبد اﷲ بن ہشام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم