کتاب: ایک ہزار منتخب احادیث ماخوذ از بخاری شریف - صفحہ 280
﴿وضاحت:بخاری کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ہر نبی اور خلیفہ کے دو باطنی مشیر ہوتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میں اپنے برے مشیر کی ترغیب سے محفوظ رہتا ہوں ﴾ نوٹ:خلاصہ کلام یہ ہے کہ مجرم یا نیک ہونا انسان کا فعل ہے یعنی اس کا اپنا فیصلہ ہے اﷲتعالیٰ کا فیصلہ یا حکم نہیں ہے بلکہ اﷲتعالیٰ تو برے انجام سے ڈراتے ہیں اور نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اگر انسان ہر براکام اﷲتعالیٰ کے حکم سے کر رہا ہے تو اﷲتعالیٰ منع کیوں کرتے۔ فرمانِ الہی ہے:(مفہوم) ’’بے شک اﷲتعالیٰ نیکی اور انصاف اور رشتہ داروں کے سا تھ حسنِ سلوک کا حکم دیتے ہیں اور ہر قسم کے برے کاموں، بے حیائی اور سرکشی سے منع کرتے ہیں ‘‘(16:90)۔ ایک طرف اﷲتعالیٰ برائی سے منع کرے اور دو سری طرف برائی اسی کے حکم سے ہو یہ بات اﷲتعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔بلکہ اﷲتعالیٰ نے برائی سے منع کرنے اور نیکی کی ہدایت کرنے کے لئے اپنے انبیا ء کرام علیہم السلام بھیجے، کتابیں نازل کیں لہٰذا برائی کو اﷲتعالیٰ کی طرف منسوب کرنا انصاف کے خلاف ہے۔انسان نیکی یا بدی اپنے اختیار سے کرتا ہے اور اس کی جزا و سزا اﷲتعالیٰ ضرور دے گا۔ فرمان الہی ہے :۔(ترجمہ)’’اور ہر انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی اور یہ کہ وہ جلد ہی اپنی کوشش کا انجام دیکھ لے گا‘‘(53:39۔40)۔ معلوم ہوا کہ انسان اپنے اختیار سے جو بھی بھلائی یا برائی کرے گااسے اس کا بدلہ(جزا یا سزا)مل کر رہے گا اس لئے کہ ہر انسان کو با ا ختیار اور با صلاحیت بنا کر بھیجا گیاہے یہ مجبورِ محض نہیں البتہ جہاں مجبور ہوگا وہاں اس سے سوال بھی نہ ہوگا۔ فرمان الہی ہے :(ترجمہ)’’اﷲتعالیٰ کسی کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف میں نہیں ڈالتے ہیں۔جو نیکی کرے گا اس کا اجر ملے گااور جو گناہ کرے گا اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑے گا(2:286) دو سری جگہ فرمان الہی ہے : (ترجمہ) ’’اور آپ کا رب اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا‘‘(41:46) غور کیجئے اگر انسان گناہ اپنی مرضی سے نہیں کرتا بلکہ اﷲتعالیٰ کی تقدیر سے مجبور ہوکر کرتا ہے تو یہ انسان گناہ کے معاملہ میں بے قصور ہوگا اور پھر اﷲتعالیٰ اسے اس کے گناہوں کے