کتاب: ایک ہزار منتخب احادیث ماخوذ از بخاری شریف - صفحہ 279
پھر عمل کرنے والے کیوں عمل کرتے ہیں ؟‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر شخص اسی کے لئے عمل کرتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے یا اسی کے موافق اسے عمل کرنے کی توفیق دی جاتی ہے‘‘.......﴿وضاحت:چونکہ اپنے انجام سے کوئی بندہ و بشر واقف نہیں ہے اس لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ ان کاموں کو بجا لائے جن کا اسے حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے اعمال اس کے انجام کی علامت ہیں لہٰذا اعمال خیر کے بجالانے میں کوتاہی نہ کرے اگرچہ خاتمہ کے متعلق یقینی علم اﷲتعالیٰ کے پاس ہی ہے ( فتح الباری )﴾ 914۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایااور قیامت کی جتنی باتیں ہونا تھیں وہ سب بیان فرمائیں۔اب جس نے انہیں یاد رکھنا تھا انہیں یاد رکھا اور جس کو بھولنا تھا وہ بھول گیا اور میں جس بات کو بھول گیا ہوں اب اسے ظہور پذیر دیکھ کر اس طرح پہچان لیتا ہوں جس طرح کسی کا ساتھی غائب ہو کر ذہن میں نہ رہے پھرجب وہ اسے دیکھتا ہے تو پہچان لیتا ہے۔ 915۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اﷲتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ نذر ماننا ابن آدم کے پاس وہ چیز نہیں لاتی جو ہم نے اس کی تقدیر میں نہ رکھی ہو بلکہ اس کو تقدیر اس نذر کی طرف ڈال دیتی ہے اورہم نے بھی اس چیز کو اس کے مقدر میں کیا ہوتا ہے تاکہ ہم اس سبب سے بخیل کامال خرچ کروائیں۔ ﴿وضاحت:بخیل پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو نذر مانتا ہے وہ کام ہو جاتا ہے تو اب اسے خرچ کرنا پڑتا ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ بخیل جو خرچ نہیں کرنا چاہتا، نذر کے ذریعہ اس سے مال نکالا جاتا ہے (فتح الباری)﴾ 916۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو خلیفہ ہوتا ہے اس کے دو باطنی مشیر (ایک فرشتہ اور دوسرا شیطان) ہوتے ہیں جن میں ایک(فرشتہ) تو اسے اچھی باتیں کہنے اور ایسی ہی باتوں کی ترغیب دینے پر مامورکرتا ہے اور دوسرا (یعنی شیطان) بری باتیں کہنے اور ان پر ابھارنے کے لئے ہوتا ہے بے گناہ تو وہی ہے جسے اﷲتعالیٰ محفوظ رکھے‘‘