کتاب: ایک ہزار منتخب احادیث ماخوذ از بخاری شریف - صفحہ 277
تقدیر کے مطابق اچھے عمل کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت میں چلا جاتا ہے۔‘‘( صحیح بخا ری کتا ب ا لقد ر)﴾ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ پہلے سے جانتے ہیں کہ کون کب اور کیا عمل کرے گا وہ اپنے وسیع علم کی بدولت یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ گنہگار انسان آخرکار توبہ کر لے گااور نیک عمل کرنے لگے گا اور اسی(اچھے عمل) پر اس کا خاتمہ ہوگا یا یہ نیکی کرنے والابا لآخر نیکی کا دامن چھوڑ کر گناہوں کی طرف راغب ہوجائے گااور اسی برائی کی حالت میں اس کا خاتمہ ہوگا۔ تقدیر کے بارے میں یہ تاثر انتہائی گمراہ کن ہے کہ انسان تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہے اور وہ اپنی مرضی اور اختیار سے کچھ نہیں کرسکتا حالانکہ نیکی اور برائی کی راہ اختیار کرنا انسان کا اپنا فعل ہے (تفصیل کیلئے پڑھئے تفسیر:18:29۔اور76:3) اﷲتعالیٰ کا کوئی جبر نہیں ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک استاد امتحان سے پہلے اپنے شاگردوں کے بارے میں اندازہ لگاتاہے کہ فلاں پاس ہوگا فلاں فیل ہوگا اور اگر اس کا اندازہ درست ثابت ہوجائے تو یہ ہرگز نہیں کہا جاسکے گا کہ یہ استاد کے اندازے کی و جہ سے پاس یا فیل ہوئے ہیں۔ پاس یا فیل ہونا ان کے اپنے عمل کی و جہ سے ہے جس طرح استاد کا اندازہ لگانا شاگردوں کو پاس یا فیل ہونے پر مجبور نہیں کرتا اسی طرح اﷲتعالیٰ کا مخلوق کے بارے میں اپنے علم مستقبل کی و جہ سے تقدیر لکھنا انسانوں کو کسی کام پر ہرگز مجبور نہیں کرتا ہے۔ بعض اوقات کچھ لوگ تقدیر کی آڑ میں اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں اگر ان سے کہا جائے کہ آپ کاروبار اور معاش کیلئے تگ و دو چھوڑ دیں جو مقدر میں لکھا ہوا ہے وہ مل کر ہی رہے گا تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اس کے لئے تقدیر کے ساتھ ساتھ تگ و دو اور بھاگ دوڑ بھی ضروری ہے جس طرح یہاں تقدیر انسان پر جبر کرکے اسے تگ و دو سے نہیں روکتی بلکہ وہ عمل کے لئے آزاد ہے اسی طرح کسی بھی معاملے میں اس پر تقدیر کا جبر نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر عمل کے لئے آزاد و خود مختار ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ) ’’ اور انسان کیلئے وہی کچھ ہوگا جس کی اس نے کوشش کی ہوگی ‘‘ (53:40)