کتاب: ایک ہزار منتخب احادیث ماخوذ از بخاری شریف - صفحہ 276
912۔ حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حوض کو ثر کا ذکر کیا تو فرمایا:’’ اس کا اتنا طول و عرض ہے جتنا مدینہ سے صنعاء تک کا فاصلہ۔‘‘ ﴿وضاحت: صنعاء نامی شہر یمن میں ہے﴾ کتاب ا لقد ر .... تقدیرکابیان ٭ ﴿ وضاحت :تقدیر کا معنی مقدار مقرر کرنا ہے۔اصطلاح شریعت میں افعال مخلوق(مخلوق کے اچھے یا برے کاموں)کے بارے میں مالکِ ارض و سما نے جو کچھ لکھا ہے وہ تقدیر کہلاتاہے۔دوسرے الفاظ میں تقدیر اﷲرب العزت کا علمِ مستقبل ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ تقدیر کے بارے میں پائی جانے والی الجھنوں کا سبب اس کے صحیح مفہوم سے عدم واقفیت ہے معنی و مفہوم سمجھ لینے کے بعد اس کی بابت کوئی اِشکال باقی نہیں رہتاہے، یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ انسان اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کسی چیز کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلیتا ہے اور اس کے انتہائی محدود علم کے باوجود بعض اوقات اس کی رائے اور اندازہ سو فیصد درست ثابت ہوجاتا ہے انسان کے برخلاف اﷲتعالیٰ کا علم اس قدر وسیع اور نہ ختم ہونے والا ہے کہ اس کے لئے ماضی،حال اور مستقبل غائب اور حاضر،دن اور رات،روشنی اور تاریکی جیسی اصطلاحات بالکل بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں اس کے سامنے ہر چیز کھلی کتاب کی طرح ہے اس وسیع اور لامحدود علم کی بدولت مخلوق کے بارے میں اس کی لکھی ہوئی تقدیر کبھی غلط نہیں ہوسکتی،اپنے اسی وسیع علم کی روشنی میں اﷲتعالیٰ نے انسان کے عمل کرنے سے پہلے ہی اس کے حساب(کھاتے) میں لکھ دیا ہے کہ یہ انسان اچھے یا برے اور کیا کیا کام کرے گا اور اس کی جزا یا سزا کیا ہوگی۔ہادی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’ایک شخص مسلسل نیک کام کرتا ہے یہاں تک کہ بالکل جنت کے قریب پہنچ جاتا ہے پھر اچانک وہی شخص تقدیر کے مطابق برے کام کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے اسی طرح ایک شخص برے کام کرتا ہے اور دوزخ کے بالکل قریب پہنچ جاتا ہے پھر وہ اچانک