کتاب: ایک ہزار منتخب احادیث ماخوذ از بخاری شریف - صفحہ 271
ہمارا بندہ جن جن عبادات سے ہمارا قرب حاصل کرتا ہے ان میں کوئی عبادت ہمیں اس عبادت سے زیادہ پسند نہیں جو ہم نے اس پر فرض کی ہے اور ہمارا بندہ نوافل کی ادائیگی سے ہمارے اتنے قریب ہو جاتا ہے کہ ہم اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب ہم اس سے محبت کرتے ہیں تو ہم اس کا کان بن جاتے ہیں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتے ہیں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتے ہیں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتے ہیں جس سے وہ چلتا ہے وہ اگر ہم سے مانگتا ہے تو ہم اسے دیتے ہیں وہ اگر پناہ طلب کرتا ہے تو اسے پناہ دیتے ہیں اور ہمیں کسی کام میں جسے کرنا چاہتے ہیں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا اپنے مسلمان بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے وہ تو موت کو (بو جہ تکلیف جسمانی)برا سمجھتا ہے اور ہمیں بھی اسے تکلیف دینا ناگو ار گزرتا ہے ‘‘ .... ﴿وضاحت:ایک حدیث میں ہے کہ ہم اپنے بندے کا دل بن جاتے ہیں جس سے وہ سمجھتا ہے اور اس کی زبان بن جاتے ہیں جس سے وہ گفتگو کرتا ہے یعنی جب بندہ اﷲتعالیٰ کی عبادت میں غرق ہوجاتا ہے اور مرتبہ محبوبیت پر پہنچتا ہے تو اس کے حواس ظاہری اور باطنی سب شریعت کے تابع ہو جاتے ہیں۔ وہ ہاتھ پاؤں، کان، آنکھ، زبان اور دل و دماغ سے وہی کام لیتا ہے جس میں اﷲتعالیٰ کی مرضی ہوتی ہے اس سے خلافِ شریعت کوئی کام سرزد نہیں ہوتا ﴾ 897۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص اﷲتعالیٰ سے ملنے کو پسند کرتا ہے تو اﷲتعالیٰ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتے ہیں اور جو اﷲتعالیٰ سے ملنے کو براسمجھتا ہے تو اﷲتعالیٰ بھی اس سے ملنے کو برا جانتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:۔’’ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم سب موت کو ناپسند کرتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:۔’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ مومن کے پاس جب موت آرہی ہوتی ہے تو اسے اﷲتعالیٰ کی طرف سے رضامندی اور اس کی سرفرازی کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ وہ اس وقت ان انعامات سے زیادہ جو اسے آگے ملنے ہوتے ہیں کسی دوسری چیز کو پسند نہیں کرتا اس لئے وہ اﷲتعالیٰ سے ملنے کی جلد آرزو کرتا ہے اور اﷲتعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتے ہیں اور جب کافر کی موت کا وقت آتا