کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 9
﴿کِتٰبٌ اَنْزَلْنہُٰ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْاآیٰتِہٖ﴾(ص:۲۹)
یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں تدبر کریں۔
اور ارشاد ہے:
﴿اَفَلااَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا﴾(محمد:۲۹)
وہ لوگ قرآن میں تدبرکیوں نہیں کرتے،کیا دلوں پر تالے پڑگئے ہیں۔
اور فرمایا:
﴿فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافاُا وَعِیْدِ﴾(ق:۴۵)
آپ قرآن کے ذریعہ اس شخص کو نصیحت کریں جو میری وعید سے ڈرتا ہو۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ آپ رات میں تہجد کے اندر قرآن مجید کی تلاوت فرماتے اور جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں جنت کا ذکر ہوتا تو اس آیت کے پاس رک کر اللہ عزوجل سے دعا فرماتے۔اور جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں عذاب کی وعید اور دھمکی ہوتی تو اس آیت کے پاس رک کر اللہ سبحانہ سے دعا فرماتے اور جہنم سے پناہ مانگتے۔یہ بات صحیح حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔مگر اہل تصوف کہتے ہیں کہ رات میں قرآن کی تلاوت کرنا اور تہجد پڑھنا ایک ایسا مشغلہ جس میں پھنس کر آدمی اللہ سے پھر جاتا ہے۔حالانکہ رات کا قیام وہ عظیم ترین فریضہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لئے مقرر فرمایا تھا کہ آپ اس کی بدولت قیامت کے روز عظیم ترین مقام پر فائز ہوسکیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: