کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 56
اور اسی کتاب میں ابن عربی نے بیان کیا ہے کہ ابلیس اور فرعون اللہ کی معرفت رکھتے تھے۔اور نجات پائیں گے۔اور فرعون کو موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ اللہ کا علم حاصل تھا۔اور جس نے کسی بھی چیز کی پوجا کی اس اللہ ہی کی پوجا کی۔اسی طرح حلاج نے بھی اپنی ساری کفریات کو کتاب کے اندر لکھ رکھا ہے۔یہ شطح یا حال کا غلبہ نہیں تھا جیسا کہ لوگ کہا کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں اگرصوفی یہ کہے کہ ان لوگوں نے ایک ایسی زبان میں بات کی ہے جسے ہم نہیں جانتے تو اس کو کہو کہ ان لوگوں نے اپنی بات عربی زبان میں لکھی ہے اور ان کے شاگردوں نے ان کی شرح کی ہے اور مذکورہ باتوں کو دوٹوک لفظوں میں بیان کیا ہے۔ اگر اس کے جواب میں صوفی یہ کہے کہ ایسی زبان ہے جو اہل تصوف کے ساتھ خاص ہے اور اسے دوسرے لوگ نہیں جانتے۔تو اس سے یہ کہو کہ ان کی یہ زبان عربی ہی زبان تو ہے جس کو انہوں نے لوگوں کے درمیان عام کیا ہے اور اپنے ساتھ خاص نہیں کیا ہے اور اسی بنیاد پر علماء اسلام نے حلاج کواس کی باتوں کے سبب کافر قرار دیا اور اسے 309ھ میں بغداد کے پل پر پھانسی دی گئی۔اسی طرح علماء اسلام نے ابن عربی کے بھی کافر زندیق ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر صوفی کہے کہ میں علماء شریعت کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ وہ علماء ظاہر ہیں حقیقت نہیں جانتے۔تو اس سے کہو کہ یہ”ظاہر‘‘تو کتاب و سنت ہے۔اور جو”حقیقت‘‘اس”ظاہر‘‘کے خلاف ہو وہ باطل ہے۔پھر اس سے یہ بھی پوچھو کہ وہ