کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 55
تو اس سے کہو کہ اب تم کافر ہوگئے۔کیونکہ تم نے کتاب اللہ' احادیث رسول اور اجماع امت کی مخالفت کی۔اس لیے کہ ان سب ذریعوں سے ثابت ہے کہ ابلیس کافر اور جہنمی ہے۔ صوفی سے یہ بھی کہو کہ تمہارے شیخ اکبر ابن عربی کا فیصلہ ہے کہ ابلیس جنتی ہے اور فرعون جنتی ہے(جیسا کہ”فصوص الحکم‘‘میں لکھا ہے)اور تمہارے استاد اعظم حلاج کا کہنا ہے کہ ابلیس اس کا پیشوا اور فرعون اس کا پیر ہے(جیسا کہ”طواسین‘‘ص 52میں لکھا ہے)اب بتاؤ کہ اس بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ جواب میں اگر وہ ان باتوں کو ماننے سے انکار کردے تو سمجھ لو کہ وہ کٹ حجت اور حقیقت کا منکر ہے یا جاہل اور ناواقف ہے اور اگر وہ بھی کافر ہوا۔اور ابلیس اور فرعون کا بھائی ٹھہرا۔لہٰذا جہنم میں ان سبھوں کا ساتھ اس کے لیے کافی ہے۔ اور اگر وہ تلبیس سے کام لے اور کہے کہ ان کی بات شطحیات میں سے ہے۔انہوں نے اسے حال اور سکرکے غلبے کے وقت کہا تھا تو اس سے کہو تم جھوٹ بولتے ہو۔یہ بات تو لکھی ہوئی کتابوں میں موجود ہے اور ابن عربی نے اپنی کتاب”فصوص‘‘کو یوں شروع کیا ہے: انی رایت رسول اللّٰه فی مبشرۃ فی محروسۃ دمشق واعطانی ھذا الکتاب وقال لی اخرج بہ علی الناس۔ ’’ میں نے محروسہ دمشق کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خواب میں دیکھا اور آپ نے مجھے یہ کتاب دی۔اور فرمایا اسے لوگوں کے سامنے برپا کرو۔‘‘