کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 54
﴿وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْط وَ مَا کَانَ لِیْ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْج فَلااَا تَلُوْمُوْنِیْ وَ لُوْمُوْآ اَنْفُسَکُمْط مَآ اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَ مَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّط اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُط اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾(ابراہیم) ’’ اور جب معاملات کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تم سے برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو وعدہ خلافی کی اور مجھے تم پر کوئی اختیار تو تھا نہیں البتہ میں نے تم کو بلایا اور تم نے میری بات مان لی لہٰذا مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔نہ میں تمہاری فریاد کرسکتا ہوں۔اور نہ تم میری فریاد کرسکتے ہو۔تم نے پہلے مجھے شریک ٹھہرایا میں اس کے ساتھ کفر کرتا ہوں۔یقیناً ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ تمام مفسرین سلف کا اجماع ہے کہ یہاں شیطان سے مراد ابلیس ہے۔اور”تم میری فریاد نہیں کرسکتے‘‘کا مطلب تم مجھے چھڑا اور بچا نہیں سکتے۔اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں ہے۔ تو اب اے صوفیو! سوال یہ ہے کہ کیا ابلیس کے بارے میں آپ لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے؟ اگر اس کے جواب میں صوفی یہ کہے کہ ہاں! ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ ابلیس اور اس کے ماننے والے جہنمی ہیں تو یاد رکھو کہ وہ تم سے جھوٹ بول رہا ہے اور اگر یہ جواب دے کر ہم ابلیس کو جہنمی نہیں مانتے' بلکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اس نے جو کچھ کیا تھا اس سے توبہ کرلیا اور مومن و موحد ہوگیا……جیسا کہ ان کے استاد حلاج کا کہنا ہے۔