کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 48
نبی سے افضل کہتے ہیں۔اور عام صوفیاء ولی کو تمام صفات میں اللہ کے برابر مانتے ہیں۔چنانچہ ان کے خیال میں ولی ہی پیدا کرتا ہے،روزی دیتا ہے،زندہ کرتا،اور مارتا ہے۔اور کائنات میں تصرف کرتا ہے۔صوفیاء کے نزدیک ولایت کے بٹوارے بھی ہیں چنانچہ ایک غوث ہوتا ہے جو کائنات کی ہر چیز پر حکم چلاتا ہے۔چار قطب ہوتے ہیں جو غوث کے حکم کے مطابق کائنات کے چاروں کونے تھامے ہوئے ہیں۔سات ابدال ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک غوث کے حسب الحکم سات براعظموں میں سے کسی ایک براعظم پر حکومت کرتا ہے۔کچھ نجباء ہوتے ہیں جو صرف شہر پر حکومت کرتے ہیں۔ہر نجیب ایک شہر کا حاکم ہوتا ہے۔اس طرح اولیاء کا یہ بین الاقوامی نظام مخلوق پر حکومت کرتا ہے۔پھر ان کا ایک ایوان ہے جس میں وہ ہر رات غار حراء کے اندر جمع ہوتے ہیں۔اور تقدیر پر نظر ڈالتے ہیں………مختصر یہ کہ اولیاء کی دنیا مکمل خرافات کی دنیا ہے۔ اور یہ طبعی طور پر اسلامی ولایت کے خلاف ہے جس کی بنیاد دینداری،تقوٰی،عمل صالح،اللہ کی پوری پوری بندگی اور اسی کا فقیر و محتاج بننے پر ہے۔یہاں ولی خود اپنے کسی معاملے نہیں ہوتا،چہ جائیکہ وہ دوسروں کے معاملات کا مالک ہو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے:"قل انی الا املک ضرا ولا رشدا”(تم کہہ دو کہ میں نہ تمہارے کسی نقصان کا مالک ہوں۔نہ ہدایت کا)‘‘ 4:جنت اور جہنم کے بارے میں جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو تمام صوفیاء کا عقیدہ ہے کہ جنت کو طلب کرنا بہت بڑا نقص اور عیب ہے۔ولی کے لیے جائز نہیں کہ وہ جنت کے لیئے کوشاں ہو،اور اسے طلب کرے۔جو جنت طلب کرتا ہے وہ ناقص ہے۔ان کے یہاں طلب اور رغبت صرف اس کی ہے کہ وہ اللہ میں فنا ہوجائیں،غیب سے واقف ہوجائیں اور کائنات میں تصرف