کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 40
اور ہر حرام کو حلال کیا جاتا ہے۔اسی کے متعلق شعرانی نے اپنی کتاب”الطبقات الکبریٰ‘‘میں یہ بیان کیا ہے کہ ایک آدمی نے اس فسق و فجور پر نکیر کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ایمان چھین لیا۔اور کس طرح چھین لیا۔شعرانی لکھتا ہے کہ:”پھر اس شخص کا ایک بال بھی ایسا باقی نہ بچا جس میں دین اسلام کی طرف جھکاؤہو۔آخر اس نے سیدی احمد رضی اللہ عنہ سے فریاد کی۔انہوں نے فرمایا شرط یہ ہے کہ تم دوبارہ ایسی بات نہ کہنا۔اس نے کہا جی ہاں۔تب انہوں نے اس کے ایمان کا لباس اسے واپس کیا۔پھر اس سے پوچھا تم کو ہماری کیا چیز بری معلوم ہوتی ہے؟ اس نے کہا مردوں اور عورتوں کا میل جول۔جواب میں سیدی احمد رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بات تو طواف میں بھی ہوتی ہے۔لیکن اس کی یہ حرمت(احترام)کے خلاف نہیں۔پھر فرمایا میرے رب کی عزت کی قسم! میرے عرس میں جو کوئی بھی گناہ کرتا ہے وہ ضرور توبہ کرتا ہے اور اچھی توبہ کرتا ہے۔اور جب میں جنگل کے جانوروں اور سمندروں کی مچھلیوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں،ان میں سے بعض کو بعض سے محفوظ رکھتا ہوں تو کیا اللہ تعالیٰ میرے عرس میں آنے والے کی حفاظت سے مجھے عاجز اور بے بس رکھے گا۔[1] اور شعرانی نے اپنی کتاب میں ان سب زندقے اور کفر اور جہالت اور گمراہی کو جو روایت کررکھا ہے تو یہ کچھ تعجب کی بات نہیں۔کیوں کہ اس شخص نے خود اپنے متعلق یہ جھوٹ اڑایا ہے کہ سید بدوی جو اس سے چار سو برس پہلے انتقال کرچکا ہے اس سے سلام کرنے کے لیے قبر سے اپنا ہاتھ نکالتا تھا۔اور یہ کہ اس مرے ہوئے سید بدوی نے اپنی مسجد کے زاویوں میں سے ایک زاویے کو شعرانی کے لئے شب عروسی کے کمرے کے طور پر تیار کیا تاکہ شعرانی اس کمرے میں اپنی بیوی کے ساتھ یکجا ہو۔اور جب شعرانی سید بدوی کے عرس میں پہنچنے میں دیر کرتا تو سید بدوی اپنی قبر سے نکل کر قبر کے اوپر رکھا ہوا پردہ ہٹاتا تھا اور کہتا تھا
[1] (طبقات الکبریٰ ج 1 ص162)