کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 39
انکار کردیتے توزمین میں کیل کی طرح گڑجاتے۔اور ایک قدم بھی نہ چل سکتے۔اور اگر بات مان لیتے تو بڑی شرمندگی اٹھانی پڑتی(کہ وہ سر عام بدفعلی کرتا،اور یہ سر پکڑے رہتے)اور لوگ یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے)وہاں سے گزرتے رہتے۔‘‘[1]
دیکھو کہ کس طرح اس کا سید علی وحیش لوگوں کے روبرو ایسی حرکت کرتا تھا کیا اس کے بعد بھی کوئی سوجھ بوجھ رکھنے والا آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ یہ ناپاک تصوف مسلمانوں کے دین کا حصہ ہے۔اور یہ بھی وہی چیز ہے کہ جس کے ساتھ پروردگار عالم کے پیغمبر ہادی و امین محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے تھے۔اور کیا علی وحیش اور اس قماش کے لوگوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی لائن میں رکھنے والا،اور ان سب کو ایک ہی راستے کا راہردقرار دینے والا والا زندیق وافاک کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے جس نے دین اسلام کو ڈھانے اور مسلمانوں کے عقائد کو برباد کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہو۔
اور شعرانی نے اس مقصد کے لئے کہ عقلیں اپنی نیند سے بیدار نہ ہوں لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اولیاء اللہ کے لئے ان کی خاص شریعت ہوتی ہے جس کے مطابق وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اس کا قرب حاصل کرتے ہیں۔چاہے اس کا ایک حصہ گدھیوں کے ساتھ بد فعلی ہی کیوں نہ ہو۔اسی لیے جب بھی کوئی شخص کوشش کرتا ہے کہ جاگے اور غور کرکے ہدایت اور گمراہی اور پاکی و ناپاکی کے فرق کو سمجھے تو یہ لوگ اس پر تلبیس و تزویر کا پھندہ ڈال دیتے ہیں۔چنانچہ اسی شعرانی کو لے لیجئے۔اس نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا ہے جس نے سید بدوی کے عرس میں ہونے والے فسق و فجور پر نکیر کی تھی۔جہاں آج بھی شہر طنطا(مصر)کے اندر لاکھوں انسان جمع ہوتے ہیں۔اور مردوں اور عورتوں کے درمیان بہت ہی بڑا اختلاط ہوتا ہے۔بلکہ مسجدوں اور راستوں میں حرام کاریاں ہوتی ہیں۔رنڈی خانے کھولے جاتے ہیں اور صوفی مرد اور صوفی عورتیں بیچ مسجد میں ایک ساتھ ناچتے ہیں۔
[1] (الطبقات الکبریٰ ج2 ص 135)