کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 33
اور یہی سلوک چوپایوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے کہ خطاب کے بدلے مار پڑتی ہے۔(پس صوفیوں کے مشائخ کو ان کے حال پر کیوں کر چھوڑا جاسکتا ہے)ہاں اگر کوئی شیخ ایسا ہوتا جسے اس کے حال پر چھوڑا جاسکتا تو وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوتے۔مگر ان کا بھی ارشاد ہے کہ:”اگر میں ٹیڑھا ہوجاؤں تو مجھے سیدھا کردو‘‘یہ نہیں فرمایا کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ کس طرح آپ پر بھی صحابہ نے اعتراض کیا چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھو کہ انہوں نے آپ سے کہا کہ ہم نماز قصر کیوں کریں جب کہ حالت امن میں ہیں۔اسی طرح ایک دوسرے صحابی نے کہا کہ آپ ہمیں وصال سے(یعنی بغیر پے درپے روزہ رکھنے سے)کیوں منع کرتے ہیں۔جب کہ آپ خود وصال کرتے ہیں؟ اور ایک صحابی نے کہا کہ آپ ہمیں حج کے احرام کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکم دے رہے ہیں،اور خود ایسا نہیں کررہے ہیں؟ پھر اور آگے بڑھو۔دیکھو اللہ تعالیٰ پر اعتراض ہوتا ہے۔یعنی تخلیق آدم کے موقع پر اس سے فرشتے کہتے ہیں:﴿اتجعل فیھاالخ﴾(اے اللہ کیا زمین میں ایسی مخلوق کو بنائے گا جو فساد مچائے گی۔الخ)اسی طرح اللہ تعالیٰ سے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا:﴿اتھلکنا بما فعل السفھآء منا﴾(کیا تو ہمارے بیوقوفوں کی کرنی پر ہمیں ہلاک کرے گا۔) واضح رہے کہ صوفیوں نے یہ بات(کہ شیخ پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا)اپنے اگلوں کو خوش کرنے،اور تابعداروں اور مریدوں پر اس کے سلوک کا سکہ بٹھانے کے لئے ایجاد کی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿فاستخف قومہ فاطاعوہ﴾(فرعون نے اپنی قوم کو حقیر جانا تو انہوں نے اس کی بات مان لی)اور غالباً یہ بات انہی لوگوں نے ایجاد کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بندہ جب اپنے آپ کو پہچان لے تو جو بھی کرے اسے کوئی ضرر نہیں