کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 25
فرعون موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو جانتا تھا۔اور جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی انہوں نے اللہ ہی کو پوجا تھا۔کیوں کہ بچھڑا بھی۔اس کے خبیث عقیدے کی رو سے اللہ تعالیٰ ہی کا ایک روپ تھا۔(تعالیٰ اللّٰه عن ذٰلک علوًا کبیرا)بلکہ اس شخص کے نزدیک بتوں کے پجاری بھی اللہ تعالیٰ ہی کی پوجا کرتے ہیں۔کیوں کہ اس شخص کے نزدیک یہ سارے جدا جدا روپ بھی اللہ ہی کے روپ ہیں۔وہ ہی سورج اور چاند ہے۔وہی جن و انس ہے۔وہی فرشتہ اور شیطان ہے۔بلکہ وہی جنت اور جہنم ہے۔وہی حیوان اور پیڑ پودا ہے اور وہی مٹی اور اینٹ پتھر ہے۔لہٰذا زمین پر جو کچھ بھی پوجاجائے وہ اللہ کے سوا کچھ نہیں۔ابلیس بھی ابن عربی کے نزدیک اللہ تعالیٰ ہی کا ایک جزو ہے۔(تعالیٰ اللّٰه عن ذلک علوًا کبیرا) دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملعون عقیدہ کو(جس سے بڑھ کر گندہ،بیہودہ،بدبودار اور بدکردار عقیدہ نہ روئے زمین نے کبھی دیکھا ہوگا)صوفیاء حضرات سرّالاسرار(رازوں کا راز)غایتوں کی غایت،ارادتوں کا منتہا،پہنچے ہوئے کاملین کا مقام اور عارفین کی امیدوں کی آخری منزل قرار دیتے ہیں۔حالانکہ یہ بددینوں،زندیقوں،برہمنوں،ہندوؤں اور یونان کے پرانے فلسفیوں کا عقیدہ ہے۔اور اس کے بعد تصوف میں جو برائی بھی داخل ہوئی وہ یقیناً اسی ملعون عقیدے کی تاریکی میں چھپ کر داخل ہوئی۔اور یہ ایسی حقیقت ہے کہ آج روئے زمین پر تصوف کی حقیقت کو جاننے والا کوئی بھی صوفی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔اور نہ اسے برا کہہ سکتا ہے۔بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ان لوگوں کا علم صرف اربابِ ذوق اور اہل معرفت ہی سمجھ سکتے ہیں۔حالانکہ یہ بات واضح عربی زبان میں صاف صاف لکھی ہوئی ہے۔ان حضرات نے اسے ضخیم ضخیم جلدوں میں لکھا ہے۔اور نثر اور شعرا اور قصیدوں اور امثال سے اس کی شرح کی ہے۔