کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 20
سے ایسی بات کا سوال کروں جسے اس نے نہیں کیا۔ (ص 105) پھر اللہ تعالیٰ کے قول:﴿وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون﴾کی تفسیر یہ کی ہے کہ”میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں‘‘ پھر اس صوفیانہ فصل کے خاتمہ پر لکھتے ہیں: ’’یہی لوگ اہل اسرار،اصحاب قرب و شہود اور برحق اولیاء صالحین ہیں۔‘‘(ص 109) اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صوفیاء منہج نے جو ڈاکٹر موصوف کا اپنا منتخب کردہ ہے ان پر کیا اثر ڈالتا ہے اور اس فکر کا نتیجہ ڈاکٹر موصوف کے یہاں کیا ہے؟ ڈاکٹر مصطفیٰ محمود نے قرآن مجید کی تاویل و تفسیر کلا بیڑہ اٹھایا تو لوگوں کے سامنے کیا چیز لے کر نمودار ہوئے؟ اور رب العالمین سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب کا وہ کیا عصری فہم ہے جو انہوں نے پیش کیا؟ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے فہم کی رسائی کے چند نمونے پیش خدمت ہیں: (الف)ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے حسب ارشاد اس درخت کو پہچاننے کی کوشش کی جس سے کھا کر آدم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کی۔اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا اجتہاد خود ان کے حسب ارشاد یہ ہے: "جنسی اختلاط ہی وہ ممنوعہ درخت تھا جس سے زندگی نے زندگی کو کھالیا اور وہ عدم کے گھڑے میں جاگری"………"اور شیطان جانتا تھا کہ نسل کا درخت موت کے آغاز اور دائمی جنت سے نکالے جانے کا اعلان ہے۔اس لئے اس کے ایک پیغام رساں نے آدم سے یہ جھوٹ کہا کہ بعینہ یہی درخت ہمیشگی کا کا درخت ہے۔اور اسے ورغلایا کہ وہ اپنی بیوی سے جسمانی اختلاط کرے۔‘‘(ص 64)