کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 19
زبان میں اللہ کا نام ہے۔اور جوگی اپنی گردن میں ہزار دانے کی ایک لمبی تسبیح لٹکائے رہتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر مصطفیٰ محمود تصوف کے طریقے اور اہل تصوف کے فہم اسلام کی تعریف کرتے ہوئے مزید آگے بڑھتے ہیں،اور لکھتے ہیں: "تصوف در حقیقت بلند مدارک کے ذریعہ ادراک کا نام ہے۔اور صوفی عارف ہوتا ہے۔ص 103 پھر ڈاکٹر صاحب موصوف قرآنی آیات کو صوفیوں کی باطنی تفسیر کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے ان کے پیچھے پیچھے دوڑتے ہیں۔چنانچہ فرماتے ہیں: "داؤد علیہ السلام کے بعض واقعات میں ہے کہ انہوں نے کہا:”اے میرے پروردگار میں تجھے کہاں پاؤں؟ اس نے کہ اپنے آپ کو چھوڑ،اور آ………اپنے آپ سے غائب ہوجا۔مجھے پاجائے گا۔‘‘ اس سلسلے میں بعض اہل تصوف نے قرآن میں موسیٰ علیہ السلام سے اللہ کی گفتگو کی تفسیر یوں کی ہے کہ:﴿فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طوی﴾(تم اپنے جوتے اتاردو۔تم وادی مقدس طوی میں ہو)میں نعلین(دونوں جوتوں)سے مراد نفس اور جسم ہے۔یا نفس اور لذات جسم میں لہٰذا اللہ سے ملاقات نہیں ہوسکتی جب تک کہ انسان اپنے دونوں جوتے یعنی نفس اور جسم کو موت یا زھد کے ذریعہ اتار نہ دے۔ (ص 104) پھر ڈاکٹر صاحب مزید آگے بڑھتے ہیں اور فرماتے ہیں: "صوفی سوال نہیں کرتا………وہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ سے شفا نہیں مانگتا۔بلکہ ادب سے کہتا ہے:میں اللہ کے ارادہ کے بالمقابل اپنے لئے کوئی ارادہ کیوں کر بناسکتا ہوں کہ اس