کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 18
ہیں۔‘‘(ص 100) پھر لکھتے ہیں کہ:”اہل تصوف کے مختلف اطوار و حالات ہوتے ہیں۔اور وہ بڑی دلچسپ رائے کے حامل ہوتے ہیں جو اپنی خاص گہرائی اور معنی رکھتی ہیں۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ معصیت کبھی کبھی طاعت سے افضل ہوتی ہے۔کیوں کہ بعض معصیتیں اللہ کے خوف اور ذل وانکسار کی طرف لے جاتی ہیں۔جب کہ بعض طاقتیں تکبر اور فریب نفس میں مبتلا کر دیتی ہیں۔اور اس طرح فرمانبردار کے مقابل میں نافرمان اللہ تعالیٰ کے کہیں زیادہ قریب اور باادب ہوجاتا ہے۔‘‘(ص 101) پھر لکھتے ہیں کہ:”صوفی اور جوگی اور راہب سب ایک ہی راہ کے راہی ہیں۔اور زندگی کے بارے میں سب کی ایک ہی منطق اور ایک ہی اسلوب ہے جس کا نام ہے زھد۔‘‘(ص 101) پھر فرماتے ہیں:”جوگی اور راھب اور مسلمان صوفی سب ایک ہی اسلوب سے اللہ کا قرب اور اس کی بارگاہ تک رسائی چاہتے ہیں یعنی تسبیحات کے ذریعہ۔چنانچہ اللہ کو یہ لوگ اس کے ناموں سے پکارتے ہیں۔﴿وللّٰہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بھا﴾اور اللہ کے بہترین نام ہیں پس اس کو ان ہی ناموں سے پکارو۔‘‘ "اور تسبیحات(چاپ)کے ذریعہ ایک خاص قسم کا جوگ کیا جاتا ہے جسے منتر یا جوگ کہتے ہیں۔یہ ھندی(سنسکرت)زبان کے لفظ منترام سے بنا ہے۔جس کے معنی تسبیح یا چاپ کے ہیں۔اور سنسکرت کی ایک خاص تسبیح(چاپ)یہ ہے کہ جوگی خشوع کے ساتھ ہزاروں بار”ہری رام‘‘کے الفاظ تلاوت کرتا ہے۔یہ الفاظ ہمارے ہیں”رحمن و رحیم‘‘کے بالمقابل ہیں۔اور سنسکرت