کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 17
ایك کتاب تو وہی نماز کے متعلق ہے جس سے ڈاکٹر مصطفیٰ محمود نے مذکورہ عبارت نقل کی ہے۔اس کے علاوہ اس کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی ایک کتاب”تفسیر قرآن کی عصری کاوش‘‘کے رد میں بھی ہے۔
اور ڈاکٹر موصوف کو محمود محمد طہ کی کتاب الصلاۃکی جو بات پسند آئی،اور جسے ہم ابھی نقل کرچکے ہیں،وہ درحقیقت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے معاملے میں ڈارون کے نظریے کو گھسیڑنے کی عجیب و غریب کوشش ہے۔حالانکہ اب اس نظریہ پر کسی کو یقین نہیں رہ گیا ہے سوائے ان لوگوں کے جو ہر قسم کے اوٹ پٹانگ خیال کو لے کر اس سے اللہ عزوجل کے کلام کی تفسیر کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں یہ بات کشف اور مجاہدہ کے ذریعے معلوم ہوئی ہے۔حالانکہ وہ محض کافروں اور ملحدوں کے افکار و خیالات کی نقل ہوتی ہے جس پر وہ قرآن کریم کی آیات کا لیبل لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
باقی رہی یہ بات کہ تفسیر و تعبیر قرآن کی عصری کاوش صوفیانہ افکار کے دائرہ سے اٹھی ہے تو اس کی دلیل قرآن کے متعلق ڈاکٹر مصطفیٰ محمود کی حسب ذیل عبارتیں ہیں:
(الف)ڈاکٹر محمود مصطفیٰ نے”اسماء اللہ‘‘کے عنوان سے پوری ایک فصل قلمبند کی ہے جس میں رب اور اِلٰہ کے معانی کی صحیح اور سالم معرفت وہی قرار دہی ہے جسے اہل تصوف نے دریافت کیا ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں:
"اہل تصوف کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حددرجہ ظاہر ہونے کے سبب ہم سے پوشیدہ ہے۔"(ص 99)
اس کے بعد موصوف صوفیانہ فکر کی مدح سرائی میں یوں رواں دواں ہیں کہ:”صوفیا اللہ کا قرب محبت کی وجہ سے چاہتے ہیں جہنم کے خوف یا جنت کی طلب کی وجہ سے نہیں۔اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کائنات سے اس کے بنانے والے کی طرف مسلسل ہجرت میں