کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 14
کہ کبائر سے مراد فاسد دعوے ہیں۔
﴿والجار ذی القربیٰ﴾(قرابت دار پڑوسی)کی تفسیر میں سہل نے کہا کہ اس سے مراد دل ہے اور الجار الجنب(پہلو کا ساتھی)نفس ہے۔اور ابن السبیل(راستہ چلنے والا مسافر)اعضاء و جوارح ہیں۔
﴿وھم بھا﴾(یوسف نے اس کا قصد کیا)اس کی تفسیر میں ابوبکر وراق نے کہا کہ دونوں قصد امراۃ العزیز کا تھا۔یوسف علیہ السلام نے اس کا قصد نہیں کیا تھا میں کہتا ہوں یہ صریح قرآن کے خلاف ہے۔
﴿ما ھذا بشر﴾(یہ بشر نہیں)کی تفسیر محمد بن علی نے یوں کی ہے کہ یہ اس لائق نہیں کہ اس کو مباشرت کے لئے بلایا جائے۔
زنجانی نے کہا کہ رعد(کڑک)فرشتوں کی بیہوشیاں ہیں اور برق(بجلی)ان کے دلوں کی آہیں ہیں۔اور بارش ان کا آنسو ہے۔
﴿وللّٰہ المکر جمیعا﴾کی تفسیر حسین نے یوں کی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جیسا مکر کرتا ہے اس سے زیادہ واضح مکر کوئی نہیں کرسکتا۔کیوں کہ اللہ نے ان کے ساتھ یہ وفا کی ہے کہ ان کے لئے اللہ کی جانب ہر حال میں راستہ ہے۔یا حادث کے لئے قدیم کے ساتھ اتصال ہے۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اس کے معنی پر غور کرے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ نرا کفر ہے۔کیوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کا مکر گویا ٹھٹا اور کھلواڑ ہے۔مگر یاد رہے کہ یہ حسین وہی ہے جو حلاج کے نام سے مشہور ہے۔اور وہ اسی لائق ہے۔
﴿لعمرک﴾کی تفسیر میں لکھا ہے کہ تو اپنے راز کو ہمارے مشاہدے کے ذریعہ تعمیر کرتا ہے۔