کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 13
عثمان نے کہا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو گناہوں میں غرق ہوں۔اور واسطی نے کہا کہ جو اپنے افعال کو دیکھنے میں غرق ہوں۔اور جنید نے کہا کہ جو اسباب دنیا کے اندر قید ہوں۔اور”تم ان کا فدیہ دیتے ہو‘‘کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ انہیں دنیا سے قطع تعلق کی طرف لے جاتے ہو۔ میں کہتا ہوں کہ یہ آیت بطور انکار کے آئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہود کے طرز عمل پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب تم انہیں قید کرتے ہوتو فدیہ دیتے ہو اور جب ان سے جنگ کرتے ہو تو قتل کرتے ہو(حالانکہ یہ بات تم پر حرام کی گئی ہے)مگر ان اہل تصوف نے اس تفسیر انکار کے بجائے مدح کے طور پر کی ہے۔ محمد بن علی نے﴿یحب التوابین﴾کا معنی بیان کیا ہے کہ اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اپنی توبہ سے توبہ کرتے ہیں(یعنی توبہ توڑ دیتے ہیں۔) اور نوری نے﴿یقبض و یبسط﴾(اللہ روزی تنگ کرتا اور کشادہ کرتا ہے)کی تفسیر یوں کی ہے کہ وہ اپنے ذریعہ قبض کرتا ہے اور اپنے لئے پھیلاتا ہے۔اور من دخلہ کان آمنا کی تفسیر یہ کی ہے کہ حرم میں داخل ہونے والا اپنے نفس کے خیالات اور شیطان کے وسوسوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔حالانکہ یہ نہایت گندی تفسیر ہے کیوں کہ آیت کا لفظ خبر کا لفظ ہے لیکن معنی امر کا ہے اور مفہوم یہ ہے کہ جو حرم میں داخل ہوجائے اسے امن دے دو۔لیکن ان حضرات نے اس کی تفسیر خبر سے کی ہے۔پھر جو تفسیر کی ہے وہ صحیح بھی نہیں۔کیوں کہ کتنے ہی لوگ ہیں جو حرم میں داخل ہوتے ہیں۔لیکن نفس کے خیالات اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ نہیں رہتے۔ ﴿ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنہ﴾(یعنی اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرلوگے تو ہم معمولی گناہوں کو بخش دیں گے۔الخ)اس کی تفسیر میں ابوتراب نے کہا