کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں - صفحہ 12
2۔نصوص قرآن وحدیث کے لئے باطنی تاویل کا دروازہ کھولنا
صوفیانہ افکار کے عظیم ترین خطرات میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت کے نصوص کے لئے باطنی تفسیر کا دروازہ کھول دیا۔چنانچہ مشکل ہی سے کوئی ایسی آیت یا حدیث ملے گی جس کی بد دین اہل تصوف نے خبیث باطنی تاویلات نہ کی ہوں۔علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ابو عبدالرحمن سلمی نے تفسیر قرآن کے سلسلے میں ان(اہل تصوف)کا کلام جو زیادہ تر ناجائز ھذیان ہے تقریباً دو جلدوں میں جمع کیا ہے۔اور اس کا نام”حقائق التفسیر‘‘رکھا ہے۔سورہ فاتحہ کے سلسلے میں اس نے ان سے نقل کیا ہے کہ اس کا نام فاتحۃ الکتاب اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہ اول ترین چیز ہے جس سے ہم نے تمہارے ساتھ اپنے خطاب کا دروازہ کھولا ہے۔اگر تم نے اس کے ادب کو اختیار کیا تو ٹھیک،ورنہ اس کے مابعد کے لطائف سے تم کو محروم کردیا جائے گا۔"
مصنف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ بری بات ہے۔کیوں کہ مفسرین کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ سورۃ فاتحہ اول اول نازل نہیں ہوئی تھی۔
اسی طرح سورہ فاتحہ کے خاتمے پر جو آمین کہی جاتی ہے اس کی تفسیر کی ہے کہ:ہم تیرا قصد کرتے ہیں".
مصنف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ بھی بری تفسیر ہے۔اس لئے کہ یہ اْمّ سے نہیں ہے،جس کے معنی قصد کرنے کے آتے ہیں۔کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو آمین کی میم کو تشدید ہوتی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قول:﴿وان یاتوکم اسٰرٰی﴾کے سلسلے میں لکھا ہے کہ ابو