کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 98
طور شامل نہیں ہیں۔(الاعتصام 2/361) (5)پانچواں قول یہ ہے کہ ’’جماعت‘‘ سے مراد مسلمانوں کی جماعت ہے اس وقت جب وہ ایک امیر پر اکٹھے ہوں۔ یہ رائے امام طبری رحمہ اللہ کی ہے جو گذشتہ تمام اقوال ذکر کرنے کے بعد رقمطراز ہیں: ’’صحیح یہ ہے کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ اس جماعت کی پابندی وابستگی رکھی جائے جو اس شخص کی اطاعت کرتی رہے جس کی امارت پر انہوں نے اتفاق کیا ہو۔ پھر جس نے اس کی بیعت توڑی وہ ’’جماعت‘‘ سے خارج ہو گا۔‘‘(فتح الباری 13/37) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پابندی کا حکم دیا ہے اور امت کے درمیان اس بات میں تفرقہ سے منع فرمایا ہے جس پر پہلے وہ مجتمع ہو چکے ہوں(الاعتصام 2/264)اور وہ ’’جماعت‘‘ جو اگر برضا و رغبت کسی امیر پر متفق و مجتمع ہو چکی ہو تو جماعت سے مفارقت کرنے والا جاہلیت کی موت مرتا ہے تو یہ وہ جماعت ہے جس کے اوصاف ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے ذکر کیے ہیں، اور یہ جماعت اہل علم اور اہل اسلام وغیرہ ایسے عام اور اکثر لوگوں پر مشتمل ہے اور یہی سواداعظم ہیں۔(الاعتصام 2/365) غرض اس قول کے تحت خلاصہ کلام یہ ہوا کہ ’’ایسا امام(خلیفہ)جو کتاب اور سنت کے موافق ہو اس امام پر اتفاق اور اجتماع کی بنیاد پر ’’جماعت‘‘ کا مفہوم بنتا ہے جبکہ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ سنت کے ماسوا کسی چیز پر اجتماع تو مذکورہ احادیث میں مذکور ’’جماعت‘‘ کے مفہوم ہی سے خارج ہے۔(الاعتصام 2/360)