کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 94
(1)بعض علماء کا مسلک ہے کہ یہاں جماعت سے مراد صرف صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں نہ کہ بعد کے لوگ(کیونکہ وہی لوگ ہیں)جنہوں نے دین کے ستونوں کو پیوستہ کیا تھا اور زمین میں اس کی خم ٹھونکی اور یہی وہ لوگ ہیں جو ضلالت یا گمراہی پر کبھی جمع نہیں ہو سکتے تھے۔(الاعتصام للشاطبي رحمه اللّٰه 2/262) یہی قول حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے۔ اس لحاظ سے ’’جماعت‘‘ کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دوسری روایت میں اس قول کا مترادف قرار پاتا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:((ما انا عليه و اصحابي))’’جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔‘‘ گویا یہ لفظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال، طریقوں اور اجتہاد سے متعلق ہے اور وہ علی الاطلاق حجت ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں مذکورہ شہادت دے رکھی ہے خاص طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے ہوتے ہوئے:((فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين۔۔۔))’’تو تم پر میری سنت اور خلفاء الراشدین کی سنت واجب ہے۔‘‘ اس طرح کے الفاظ بہت سی احادیث میں ملتے ہیں۔ (2)دوسرا قول یہ ہے کہ یہ لوگ ائمہ مجتہدین ایسے اہل علم اور حاملین فقہ و حدیث ہیں ’’کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی مخلوق پر حجت بنایا ہے اور دین کے معاملے میں لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘(فتح الباری: 13/27) یہ قول امام بخاری رحمہ اللہ کا ہے چنانچہ وہ اس پر اس طرح کا باب باندھتے ہیں: باب: وكذلك جعلناكم امة وسطا اما امر النبي صلي اللّٰه عليه وسلم بلزوم الجماعة، وهم